خوف فساد خلق

خوف فساد خلق

گیس فیلڈ کے ارد گرد(غالباً) پانچ کلو میٹر علاقے کے مکینوں کو مفت گیس کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے مگر مبینہ طور پر معاہدے کی پاسداری نہیں ہو رہی اس حوالے سے متعلقہ علاقوں کے عوام ماضی میں بھی احتجاج کرتے رہے ہیں اور پوچھتے رہے ہیں یعنی بقول داغ دہلوی
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
یہ سلوک صرف خیبر پختونخوا کے ساتھ ہی روا نہیں رکھا جارہا ہے ، بلکہ اس کی ابتداء تو بلوچستان کے ساتھ ایک طویل عرصے تک روا رکھے جانے والے سلوک سے کی گئی تھی ، یعنی سوئی کے علاقے سے نکلنے والی قدرتی گیس کو سب سے پہلے کراچی پہنچایا گیا اور ابتداء میں اسے کراچی کے صنعتی اداروں کو مہیا کر کے صنعتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ، پھر گھریلو صارفین کو مستفید کیا گیا ، اس کے بعد اسے کراچی سے ”برآمد” کر کے لاہور میں کالاشاکاکو کے وسیع و عریض صنعتی زون اور لاہور کے عوام کو مستفید کیا جاتا رہا اور آہستہ آہستہ اسلام آباد تک رسائی دیے ہوئے تقریباً نصف پاکستان کو” نہال” کیا جاتا رہا ‘ اس دوران میں ملک دو لخت ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ابتداء میں حیات محمد خان شیرپائو نے بحیثیت وزیر قدرتی وسائل نہ صرف سلینڈر گیس کی ایجنسیاں تقسیم کر کے پشاور کے عوام کو سہولت فراہم کی بلکہ سوئی گیس پائپ لائن بچھانے کیلئے بھی وفاقی کابینہ سے منظوری لے کر کام شروع کروایا۔ مگر بدقسمتی دیکھئے کہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سوئی گیس سے صنعتوں اور عوام کو مستفید کئے جانے کے باوجود اگر گیس نہیں ملی تو سوئی اور دیگر ملحقہ علاقوں کے عوام کو نہیں ملی ‘ یہاں کہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ بھی اگلے کئی برس تک اپنی ہی سرزمین سے نکلنے والی گیس سے محرومی کا شکار رہا اس لئے اگر کرک اور دیگر مقامات سے نکلنے والی قدرتی گیس میں سے خود ان علاقوں کے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہو رہے ہیں تو یہ کونسی نئی بات ہے ؟ کیونکہ ملکی وسائل پر جس اکثریت کا قبضہ ہے اس کے سامنے عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہے ‘ نہ ہی چھوٹے اور کمزور علاقوں کی لیڈر شپ میں اتنی قوت ہے کہ وہ اپنے عوام کے جائز حق کیلئے بھر پور طریقے سے آواز اٹھائیں بلکہ عموماً ان کا تعلق انہی جماعتوں سے ہوتا ہے جو کمزور طبقوں کے استحصال میں”دلچسپی” رکھتی ہیں ان جماعتوں کے ممبر ہونے کے ناتے یہ ”عوامی نمائندے” یا تو پارٹی پالیسی کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر ذاتی مفادات کی وجہ سے مجبوریاں ان کے پائوں کی زنجیر بنی ہوتی ہیں جس طرح سوئی گیس پر خصوصاً سوئی کے عوام کے حق کو کئی دہائیوں تک تسلیم نہیں کیا جاتا رہا ہے اسی طرح خیبر پختونخوا کے متعلقہ علاقوں سے نکلنے والی قدرتی گیس کی تقسیم بھی”دوسروں” کے قبضہ قدرت میں ہے ، اور معلوم نہیں کہ رائلٹی کی مد میں ہمارے صوبے کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے ‘ بالکل پن بجلی کی طرح جس کی پیداوار بھی تقسیم کرنے کے حوالے سے قومی گرڈ کی”مرضی” ہوتی ہے ‘ اور گزشتہ چند ماہ کے دوران مزید بجلی بھی قومی گرڈ کے حوالے کی گئی مگر لوڈ شیڈنگ کی صورتحال دیکھئے کہ صوبے کے طول و عرض میں عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں ، مستزاد بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے سے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے اور اب تو ایک اور مصیبت یہ گلے پڑنے والی ہے کہ 25 ہزار سے زائد بلوں پر مزید ساڑھے سات فیصد ٹیکس عاید کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں حالانکہ قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے گزشتہ سال کے مقابلے میں اتنے ہی یونٹ بجلی خرچ کرنے پر بلوں میں ویسے ہی اضافہ ہو چکا ہے اوپر سے ساڑھے سات فیصد ٹیکس؟ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل’ ایسی صورتحال میں تو صرف مفت کی بجلی استعمال کرنے والے یعنی وزاراء سے لیکر سرکاری عمال ہی کے گھر روشن ہوں گے ‘ گویا بقول علامہ اقبال
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
دہقان کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ جو کسی زمانے میں غریبوں کے گھروں میں مٹی کے دیئے یا پھر کیروسین آئل سے روشن ہونے والے لالٹین روشنی پھیلاتے تھے اب مہنگائی کی وجہ سے اس”عیاشی’‘ کے بھی لوگ آسانی سے متحمل نہیں ہو سکتے اس پر بھٹو دور کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کی صوبائی اسمبلی کے سپیکر محمد حنیف خان کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران ان کی یہ فریاد یاد آرہی ہے جو انہوں نے بطور انٹرویور مجھ سے کی تھی کہ جس دور میں ملاکنڈ میں جبن پن بجلی گھر سے صوبے کے کچھ علاقوں اور لاہور تک بجلی مہیا کی جاتی تھی اسی دور میں بجلی گھر کے اوپر پہاڑ میں آباد عوام اپنی بجلی سے محروم تھے اور وہاں کے نوجوان رات کے وقت گپ شپ کرنے کیلئے اسی پانی کے منبع کے قریب بیٹھ کر نیچے بجلی گھر کی روشنیوں کوحسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنی قسمتوں کو کوستے رہتے تھے یعنی صورتحال تب کے سوئی کے علاقے والی تھی کہ سوئی کے مکینوں کواپنی گیس اور ملاکنڈ پن بجلی کے ”مالکان” کو بجلی نہیں ملتی تھی اس قسم کی پالیسیوں سے عوام کے دلوں میں نفرت پیدا ہونا ایک فطری امر تھا ‘ اب یہی حالت کرک کے عوام کی ہے ‘ مگر پالیسی سازوں کو نہ تب کوئی پرواہ تھی نہ آج کے پالیسی ساز کچھ توجہ دینے کو تیار ہیں ۔ اس صورتحال کو آزاد انصاری کے الفاظ سے واضح کرتے ہیں کہ
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے