دائرے کا سفر

1947ء کا زمانہ تھا۔ انگریز برصغیر سے رختِ سفر باندھے ہوا تھا اور اپنے پیچھے خلا پر کرنے کی تدبیریں کر رہا تھا۔ برٹش انڈیا اور دیسی ریاستوں کا مستقبل طے کرنے میں بے شمار رکاوٹیں اور مشکلات حائل تھیں۔ ایسے میں پاکستان ایک مقبول نعرہ بن چکا تھا۔ وادی کشمیر میں اس نعرے کی دھوم تھی اور دسویں جماعت کا ایک لڑکا بھی پاکستان کے حصول اور اس سے ملنے کی دھن میں آگے بڑھ رہا تھا ۔وہ 1946ء میںانڈین نیشنل کانگریس اور شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے مشترکہ جلسے میںآنے والے پنڈت نہرو کے دورہ کشمیر پر اپنے گھر کے سامنے سے گزرنے والی راولپنڈی سری نگر شاہراہ پر احتجاجی مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں کی قیادت کرتا تھا۔ اس جلسے میں برصغیر کے کئی قوم پرست لیڈروں نے بھی شرکت کی تھی۔ کمشنر راولپنڈی نے ان خدمات کے اعتراف میں اسے رخصت ہوتے وقت حسن کارکردگی کی سند بھی دی۔گورڈن کالج میں یہ نوجوان مسلم کانفرنس کی طلبہ تنظیم آل جموں وکشمیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کے طور پر سرگرم تھا کہ ایک دن کالج سے چند گز دوری پر کمپنی باغ میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے جلسے کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔گورڈن کالج کے پرجوش اور مسلم لیگی طلبہ اس جلسہ کے انعقاد کے لئے پرجوش اور سرگرم تھے۔ وہ اس جلسے کی اناؤنسمنٹ اور دیگر انتظامات کا حصہ تھے۔ جوان خون اور اس پر جماندرو مسلم لیگر ہونے کا زعم گورڈن کالج کے طلبہ سٹیج کے قریب بیٹھنے کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ سو یہ نوجوان بھی سٹیج کے سامنے تھا جب لیاقت علی خان گولی کا شکار ہوگئے۔ قائد اعظم کا دست راست اور ان کا فطری جانشین خون میں لت پت ہوگیا تو پاکستان کو اگلے راستوں پر لے جانے کی خواہش مند نسل ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔ یہ نوجوان جو اپنی آنکھوں میں پاکستان کی تعمیر و تشکیل کے لئے نجانے کتنے خواب سجائے اپناگھر والدہ خاندان سب کچھ چھوڑ آیا تھا اپنی آنکھوں کے سامنے یہ منظر دیکھ کر حالات سے مایوس ہوگیا۔ پیدائشی سیاسی مزاج کا حامل شخص عملی سیاست سے مایوس ہوکر رزق روزگار کے چکروں میں اُلجھ گیا۔ پھر یہ نوجوان تاحیات اس واقعہ کے زیر اثر رہا اوراپنے بچوں کو کمپنی باغ کا آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتی رہتی۔ یہ پاکستان کی کہانی ایک نوجوان کی کہانی حقیقت میں میرے والد کی کہانی ہے۔ آج میری عمر چون برس ہے اور کم و بیش بتیس سال سے میں شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں۔ پاکستان کے ہر واقعہ ہر مدوجزر پر قلم اُٹھایا قلم کا زمانہ ختم ہوا تو کی بورڈ کے ذریعے سفر جاری رہا اور یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان کے حالات پر کتنی بار” دائرے کے سفر کے ” عنوان سے کالم لکھ چکا ہوں ۔ اس سفر میں بے نظیر بھٹو کی لیاقت علی خان سٹائل میں شہادت پر لکھنا پڑا۔ آج پاکستان کی چوتھی نسل میدان میں ہے۔ میری بیٹی یونیورسٹی میں ہے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو وہ بالکل اسی سٹائل میں اس گتھی کو سلجھانا چاہتی ہے جس انداز میں ہم اپنے والد سے لیاقت علی خان کی شہادت کے واقعے کو سمجھنا چاہتے تھے۔ آخر قائد اعظم کے ساتھی اور پہلے وزیر اعظم سے ایسی کونسی خطا ہوئی تھی کہ ایک گولی کا شکارہونا پڑا؟۔ خدانخواستہ عمران خان اس گولی کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج پاکستان بدترین انارکی کا ہی شکار نہ ہوتا بلکہ ایک نسل غم و اندوہ کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کا شکار ہو کر ملک کے حالات اور معاملات سے الگ ہو چکی ہوتی۔ پاکستان کی چوتھی نسل بھی دکھ اور درد کے اسی زینے پر ہے جہاں اس نسل کے دادا نانا تھے۔ مجال ہے اس قوم نے سیاسی بلوغت کا سفر طے کیا ہو۔ حد تو یہ ”سیداکبر ” تو نوید کی طرح سامنے ہے اور اسے موت کے گھاٹ اُتارا نہ جا سکا مگر سید اکبر کو مار کر کہانی کوختم سمجھنے والا ہاتھ آج بھی نامعلوم ہے۔ پاکستان جب بھی اپنی سمت کا درست تعین کرنے لگتا ہے کوئی پراسرار ہاتھ سٹیرنگ پر اپنی گرفت مضبوط کرکے گاڑی کا رخ اپنی پسند کی سمیت کر دیتا ہے اور اس کھینچاتانی میں کوئی گھائل ہوتا ہے تو کوئی غائب۔ اسی صورت حال کی بہترین منظر کشی منیر نیازی یوں کرتے ہیں
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔
وہ اسے دکھ اور کرب کو یوں بھی بیان کرتے ہیں
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں دیکھا
خوش آئند بات یہ کہ آسیب کے سائے کو تلاش کیا جا چکا ہے۔ نئی نسل نے اپنے شعور اور بصیرت سے اس آسیب کو جان اور پہچان لیا ہے۔ وہ آسیب یہ ہے کہ پاکستان کو حالات کی صلیب پر یونہی جھولتا رکھنا ہے۔ اسے بڑے کردارسے باز رکھنا بڑے خواب سے دور رکھنا ہے۔ اس کے لئے بڑا رول سکرپٹ میں موجود ہی نہیں یہ رول جن کے لئے مختص ہے پاکستان سے سینگ پھنسائے بیٹھا ہے۔ اس آسیب کو امریکی مصنف اور محقق ڈینیل مارکی کی کتاب ”نو ایگزٹ فرام پاکستان ” میں بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں