دامن انسانیت تارتار

سیالکوٹ میں ایک بے قابو ہجوم کی جانب سے غیر ملکی شخص کی جان نہایت درندگی سے لی گئی ۔ہمارے اندر کا قومی وحشی پن پوری طرح سیالکوٹ میں رقص کناں رہا ۔ایک شخص کے جسم کو ٹھڈوں اور گھونسوں کے آگے اور لاٹھیوں کے نیچے رکھ کر اور پھر بے جان جسم کو تیل اور دیا سلائی دکھا کر اس سے بلند ہونے والے شعلوں پر فاتحانہ انداز اپنا نا ہماری اس خوئے وحشت کو عیاں کر رہا تھا۔سری لنکا کا ایک باشندہ جو زمانے بھر کے خدشات اور خطرات کو جھٹک کر پاکستان میں نوکری کرنے آیا تھا اور ایک فیکٹری میں منیجرکے طور پر کام کرتا تھا ۔فیکٹری میں لگے سٹکر اتارنے میں کسی بے احتیاطی کا شکار ہوااور یوں بات کا بتنگڑ بنادیا گیا ۔ایک شخص کی خوئے فساد اور ستم بیدار ہوئی رگِ فتنہ پھڑک اُٹھی جسے اس نے اسلام سے محبت کے ساتھ جوڑا اور یوں ایک یک طرفہ مقدمہ گھڑا گیا ۔ فسادیوں کی زنجیر بنتی چلہ گئی ،ہجوم اکٹھا ہوگیا پھر جنون اور وحشت عقل پر غالب آگئی ۔ہجوم میںکسی کو ملزم کا جرم پوچھنے اور جواز مانگنے کی فرصت کہاں ہوتی ہے ۔سیالکوٹ کی سرزمین پر بھارت کے مناظر دیکھنے کو ملے جہاں کسی کی جیب سے گائے کا گوشت ہونے کا الزام عائد کرکے کسی مسلمان راہگیر کو اسی انداز سے لاتوں اور ٹھڈوں کے آگے دھر لیا جاتا ہے اور بات ڈنڈوں اور پتھروں تک پہنچ جاتی ہے۔جس کے بعد اس ہدف کو مارمار کر جان سے گزار دیا جاتا ہے ۔ہجوم جے شری رام کے نعرے لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے مذہب کی بہت بڑی خدمت کی ہے ۔سیالکوٹ میں ہجوم کے تشدد کا یہی رویہ رخ اور انداز دیکھا گیا ۔یہ ایک غیر ملکی نہیں جل مرا پہلے سے بہت سی بدنامیوں کی زد میں آئے ہوئے پاکستان کا بین الاقوامی امیج مزید جل کر رہ گیا ۔سری لنکن شہری کا جرم کیا تھا ۔اس کی جو کہانی اس معرکے ایک ”فاتح”نے خود سنائی جو اب سلاخوں کے پیچھے ہے وہ اس الزام کی صحت اور جرم کی نوعیت پر گہری تحقیق اور سوال در سوال کا متقاضی ہے ۔ایک سری لنکن شہری نے جو مسلمان بھی نہیں اور اردو سے زیادہ واقفیت بھی نہیں رکھتا بے دھیانی اور لاعلمی میں بھی اس فعل کا مرتکب ہو سکتا ہے ۔فرض کریں اگر اس شخص پر جو یہاں رزق روزگار کی خاطر آیا تھا اپنے مذہب کو غالب کرنے اور غالب اکثریت کے حامل ملک ومعاشرے کے مذہب کی تحقیر کرنے کا شوق چرایا ہی جسے ذہن قبول کرنے کو تیار نہیں تب بھی قانون کو یوں ہاتھ میں لینے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے ۔پاکستان ایک قانون اور آئین کا حامل ملک ہے ۔یہاں صحت جرم کا تعین کرنے اور انصاف دینے اور تاثر کو حقیقت سے الگ کرنے کا پورا نظام قائم ہے ۔ ایسے معاشرے میں بات بے بات قانون ہاتھ میں لینا ملک ومعاشرے کو وحشت اور انارکی کی نذر کرنے کی منظم کوشش ہے ۔حد تو یہ کہ ایک شخص کی لاش جل رہی تھی اور ہجوم فاتحانہ انداز میں ان شعلوں کے ساتھ سلفیاں بناکر خود کو جنت کا حقدار اور مستحق بنا رہا تھا ۔ان مغالطوں کا کوئی علاج نہیں۔یہ خبط ِعظمت ہے صرف پاکستانی مسلمانوں کا خاصہ ہے ۔ برسوں پہلے اسی علاقے میں ایک حکیم عطائی اور عیسائی کے چکر میں مار دیا گیا تھا۔ایک نیک اور پرہیز گار شخص کی کسی سے ان بن ہوگئی تھی پھر ایک مقدمہ گھڑا گیا کہ ایک عطائی نے توہین مذہب کی ہے لوگ عطائی کو عیسائی سمجھ کر چل دوڑے اور حکیم کو مارمار کرموت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کے بعد بھی ہجوم کے ہاتھوں ا نسانوں کی اس سفاکانہ موت کے واقعات بڑھتے چلے گئے ۔سیالکوٹ میں ہی دوبھائیوں کی بہیمانہ تشدد سے موت نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا مگر بعد میں کچھ پتا نہ چلا کہ ان قاتلوں کے ساتھ کیا ہوااور کہانی نے کیا رخ اختیار کیا ۔انصاف وقت کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو کر رہ گیا تھا۔دنیا کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان امن وامان کے حوالے سے آئیڈیل جگہ ہے ۔تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ یہ واقعہ ہوگیا ۔جہاں ایک ہجوم ایک تنہا شخص کو بھنبھوڑتا رہا اور انتظامیہ پولیس یا کوئی عام شخص اس ظلم کو روکنے کے لئے دستیاب نہیں تھا ۔پرامن مظاہرین پر لاٹھی چار ج کرنے کے لئے ہمہ وقت دستیاب اور تیار پولیس سیالکوٹ جیسے شہر میں نجانے گھنٹوں کہاں غائب رہی ؟جلتی ہوئی لاش کے قریب پولیس اہلکاروں کا سراغ ضرور ملتا ہے اوریہاں بھی وہ لاتعلقی کا رویہ اپنائے لوگوں کو سیلفیاں لیتے ہوئے دیکھ رہی ہے ۔سسٹم کا دیوالیہ پن اس کے سوا اور کیا ہوتا ہے ؟۔اب بھارت سمیت دنیابھر کا میڈیا اس واقعے کو نمک مرچ لگا کر پیش کر رہا ہے تو یہ موقع کس نے دیا ؟ ۔بھارت کے میجر گورو آریہ کی وہ بات بہت اہم ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نا پر آگ لگانا بہت آسان ہے ۔یہاں ہر شخص بزعم خود سچا اور اصلی مسلمان بنا پھر تا ہے اپنے فرقے کو حق سچ اور دوسرے کو باطل سمجھتا ہے اس مائنڈ سیٹ نے فساد ی سوچ کو جنم دیا ہے۔اس سوچ کا قلع قمع کرناعلمااور حکومت وریاست کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا