درد دل کے واسطے

22 جون 2022 کی شام کو مانچسٹر جانے والی ورجن ائرلائن کی پرواز کیلئے اہلیہ کے ساتھ اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچا۔ تو ایک ادھیڑ عمر خاتون کو دیکھا جو ساتھ بیٹھے پندرہ سولہ سال کی عمر کے تین بچوں کو بار بارپیار کرتے ہوئے بے تحاشا آنسو بہا رہی تھی۔میں تو کھڑا رہا۔اور میری اہلیہ خاتون کے قریب جگہ ملنے پر ان کے ساتھ بنچ پر بیٹھ گئی۔اس نے خاتون کے ساتھ کچھ دیر باتیں کیںاور پھر اٹھ کر میرے پاس آگئی اور کہا کہ اس خاتون کے تین بچوں کو برٹش پاسپورٹ مل گیا ہے اور آج ان کی مانچسٹر فلائٹ ہے۔جب کہ خاتون کو ابھی برٹش پاسپورٹ جاری نہیں ہوا ہے اور وہ بچوں کے ساتھ نہیں جاسکتی۔اس لئے رو رہی ہے ۔ اہلیہ نے مزید بتایا کہ خاتون کو جب پتہ چلا کہ ہم بھی مانچسٹر جا رہے ہیں۔تو اس کو کچھ تسلی ہوئی اور اس نے درخواست کی ہے کہ ان کے بچوں کا دوران سفر خیال رکھیں۔میں نے اہلیہ سے کہا کہ اس کو جا کے بتا دینا کہ ہم اس کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح لے کر جائیں گے۔اس نے جا کے خاتون کو بتایا تو خاتون نے مجھے بھی توجہ دی اور شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ شکریہ کو گولی مارو یہ بتائو کہ یہ آپ اس مہنگائی میں اتنی سخاوت سے آنسو کیوں ضائع کر رہی ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ بچوں کی جدائی اور ان کے اکیلے سفر کرنے کی وجہ سے کیونکہ ان کو تو امیگریشن کروانے کا پتہ ہی نہیں ۔میں نے کہا کہ اوہو بس اتنی سی بات کے لئے تم آنسو بہا رہی ہو۔ ان بچوں کو تو پیدا ہوتے وقت بھی امیگریشن کا پتہ نہیں تھا لیکن پھر بھی پوری جوانمردی کے ساتھ اس اجنبی دنیا میں چلے آئے۔ اور اب ماشااللہ جوان ہو رہے ہیں۔دیکھیں نا بڑے بچے کی تو مونچھیں بھی نکل آئی ہیں۔ اور اب اس کی شادی کرانی ہے۔ خدا کا خوف کرو۔ بجائے اللہ کا شکر ادا کرنے کے کہ آپ کے بچوں کو برٹش پاسپورٹ ملا اور اب اعلی تعلیم حاصل کرکے ان کی زندگی بن جائے گی اور وہاں حسین گوریوں کے ساتھ شادی کرکے تمہارے لئے دس پندرہ پوتے بھی پیدا کریں گے۔ تم آنسو بہا رہی ہو ۔ مانچسٹر کونسا قطب شمالی میں ہے جو تم پریشان ہو۔ سامنے ہی تو ہے ۔ تمہارے بچے پلک جھپکنے میں اپنے ابو کے پاس ہونگے اور چند دن بعد تم بھی ان سے جا ملوگی۔خاتون رونے کو عمران خان کی طرح پائوں میں گولی مار کر مسکرانے لگی شاید دس پندرہ پوتوں کے حسین خواب اور بہو کو بلاوجہ ڈانٹنے کے رومانوی تصور سے اس کے گلے میں لڈو پھوٹنے لگے تھے۔ ہمارے ہاں کی خواتین کا یہ ایک عظیم ترقیاتی پراجیکٹ ہوتا ہے کہ اپنی ساس کے ڈھائے ہوے مظالم کا بدلہ اپنی بہو سے لینے کی سعادت حاصل کریں۔ یہ قیمتی ورثہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے اور بہت متقی اور پرہیزگار خواتین بھی یہ نیکی کمانے کی آرزو میں سالہا سال گزار لیتی ہیں ۔بلکہ حج پر جا کر بھی گڑ گڑا کر دعا مانگتی ہیں کہ یا اللہ ایک عدد بہو عطا کر جس کوڈانٹ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر لوں ۔ بہو بھی پرانے زمانے میں پڑوسن کے ساتھ ساز باز کرکے اور اب انٹر نیٹ پر ساس کو تنگ کرنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ کر ان کا فی سبیل اللہ استعمال کرتی رہتی ہیں۔ جاپان میں ایک مثل مشہور ہے کہ جب میں بہو تھی تو میری ساس اچھی نہیں تھی اور اب جب میں ساس ہوں تو میری بہو اچھی نہیں۔خاتون مزید دعائوں کا ہدیہ دینے لگیں تو میں نے عرض کیا کہ بی بی اب تم اپنے گھر جائو اور بقایا دعائیں اللہ میاں کے پاس ایس ایم ایس یا وٹس ایپ کے ذریعے بجھوا دینا۔ اس تاکید کے ساتھ کہ یہ میرے اکائونٹ میں جمع ہونے ہیں۔خاتون رخصت ہوئی۔میری اہلیہ بھی مسکرائی اور حکم دیا کہ بس آپ اپنے تین نئے نویلے بیٹوں کو سنبھالیں ۔ باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں ۔میں تینوں ریڈی میڈ بیٹے اور ان کے پاسپورٹ لے کر اندر چلا گیا ۔کائونٹر پر حج پہ جانے والوں کا ہجوم تھا۔ مجبوراً ایک سفارش لگوانی پڑی اور چند منٹ بعد ہم ڈیپارچر لائونج میں تھے۔بچوں نے ماں کو فون پر پہلی خوشخبری دی۔بچوں سے کچھ چائے برگر کا پوچھا تو بڑے والے بھائی نے نفی میں سر ہلایا۔اور کہا کہ”انکل رہنے دیں”۔لیکن چھوٹے بھائیوں نے میری طرف امید بھری نظروں سے دیکھا ۔ اور بڑے بھائی کو ہلکے سے کہا کہ لانے دو۔ہم بھوکے ہیں۔شاید انہوں نے ایئر لائن کا ڈنر کھانے کی امید پر گھر میں ڈنر نہیں کیا تھا۔ اور اب پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ بڑے بھائی نے پھر بھی خود داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناں کہا لیکن میں نے کہا کہ ”نہیں میں اپنے بچوں کو چائے برگر ضرور کھلائونگا”۔میں نے تینوں کیلئے چائے برگر منگوا لئے اور جب برگر آگئے تو میں دور بیٹھی اپنی اہلیہ کے پاس چلا آیا تاکہ وہ بلا تکلف چائے برگر پر ہاتھ صاف کریں۔اتنے میں بڑے والا بھائی میری سیٹ پر آیا اور کہا کہ انکل آپ ہمارے ساتھ بیٹھیں ہم چائے پیتے ہوئے آپ کے ساتھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔میں جا کے ان کے پاس بیٹھ گیا ۔پتہ چلا کہ میرپور آزاد کشمیر سے ہیں۔ بڑا تو اکیلے نازل ہوا تھا لیکن دونوں چھوٹے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خراماں خراماں آئے تھے۔ یعنی جڑواں بھائی تھے۔ مانچسٹر تک بہت پیاری پیاری اور معصوم باتیں۔میں نے نصیحت کی کہ انگلینڈ میں والد کے ساتھ کاروبار میں لگنے کی بجائے پہلے اعلی تعلیم حاصل کریں۔ کاروبار میں کیا رکھا ہے ۔صرف پیسہ ؟ ایک آدھ خوش نصیب کاروباری ہی کسی جنرل کی آنکھ کا تارا بن کر ۔۔۔۔خیر چھوڑئیے ۔ مزید نصیحت کی کہ انگلینڈ میں انسانیت کے احترام کا پرچار کریں۔دنیا کے سارے انسان ایک ہی ماں باپ آدم و حوا کی اولاد ہیںاور آپس میں کزن ہیں۔بس دانہ پانی کی تلاش میں ایک دوسرے سے دور جاکر ظاہری رنگ و روپ تبدیل کر بیٹھے ہیں۔ورنہ اندر سارے اعضاء ایک جیسے ہیں۔ مزید نصیحت کی کہ گم شدہ پاکستانیت کا پرچار کریں ۔پاکستان ہماری واحد پناہ گاہ ہے۔ مانچسٹر ایئر پورٹ پر بچوں نے امی کو اپنے بخیریت پہنچنے اور انکل کی چائے برگر اڑانے کی اطلاع دی۔ان کی امی میری بہت شکر گزار تھی۔لیکن میں نے اس کو بتایا کہ دراصل میں تم لوگوں کا شکر گزار ہوں۔کہ اس نو گھنٹے کے بور سفر کو میرے لئے ہلکا پھلکا اور خوش گوار بنا دیا ۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات