دستاویزی آمدورفت پربلاوجہ کا احتجاج

طور خم سرحدی گزرگاہ کی دو طرفہ تجارت کے لیے بندش جس کے باعث گزرگاہ کے دونوں جانب سینکڑوں مال بردار گاڑیاں پھنس گئیں۔ کارگو گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے لئے سفری دستاویزات کی شرط عائد ہے۔ جس کے باعث سکیورٹی حکام نے گزشتہ روز بغیر سفری دستاویزات کے افغانستان سے داخل ہونے والے گاڑیوں کو روک دیا تھا جبکہ افغان فورسز نے بھی پاکستان سے داخل ہونے والی کار گو گاڑیوں کو واپس بھیج دیا تھا۔ ڈرائیورز کے لئے سفری دستاویزات کا فیصلہ گزشتہ سال وفاقی حکومت نے کیا تھا جس پر عمل درآمد گزشتہ روز سے شروع کیا گیا۔بعض عناصر کی جانب سے چمن اور طورخم بارڈر پرویزا اور پاسپورٹ پریعنی قانونی دستاویزات کے حاملین ہی کوآمدورفت دینے کے معاملے کو بلاوجہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے اس وقت بھی چمن سرحد پرتقریباً پچاس روزسے زائد عرصے سے دھرنا اور احتجاج جاری ہے جبکہ انگور اڈہ گیٹ میں بھی دھرنا جاری ہے اس طرح کے احتجاج اور دھرنوںکا کوئی جواز نہیں بلکہ یہ لاحاصل سعی ہے حیرت انگیز طور پر قانونی دستاویزات کی پابندی کی شرط کوایک ایسے پیچیدہ عمل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس کا کوئی جواز نہیں دنیا کے ممالک کے سفرکا جومروجہ طریقہ کار ہوتاہے پاک افغان سرحدوں پراس کی عدم پابندی جن مشکلات کا باعث بنتا رہا ہے اس کے اعادے کی ضرورت نہیں سرحدی آمدورفت کوسہل بنانے کی وکالت تو ہوسکتی ہے مگرسرے سے سرحدی آمدورفت کو اپنی مرضی بنا لینے کی ضد بلاجواز ہے جسے ترک کرکے احتجاج کی بجائے قانون کی پاسداری کی جانی چاہئے بصورت دیگر دونوں ممالک کے درمیان تجارت اورآمدورفت معطل ہونے سے صرف حکومت کا ہی نقصان نہ ہو گا بلکہ ملک و قوم اورخود احتجا ج کرنے والے عناصربھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے مناسب ہوگاکہ دستاویزی آمدورفت اختیارکرکے احتجاج کا سلسلہ ختم کیا جائے علاوہ ازیں کی سہولیات بارے مطالبات پرحکومتی اداروں کو ہمدردانہ رویہ اختیار کرناچاہئے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار