1 271

دسمبر سے پہلے پہلے

حزب اختلاف کے نئے اتحاد نے حسب اعلان گوجرانوالہ سے اپنی تحریک کا سفر شروع کر دیا ہے۔ یہ شو کتنا کامیاب رہا اس بارے میں تحریک انصاف کا ادعا اور ہے اور حزب اختلاف کا دعویٰ اور، اس بارے میں صرف عوام ہی رائے دے سکتے ہیں کیونکہ وہی صحیح منصف ہیں، بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے ان دونوں میں سے کوئی ایک سچا تو ہوگا۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے اسے ممتاز دانشور قلقلا خان ماننے کو تیار نہیں ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جبلت میں شامل ہے کہ وہ یوٹرن لیتی ہے، اگر کل کلاں کو حسب جبلت یوٹرن ہو گیا تو وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، چلیں فی الحال پی ٹی آئی زعماء کی بات کو قبول کرلیتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے جلسے کے بارے میں طرح طرح کی بولیاں بولی گئیں، اب بھی پی ٹی آئی اس بات پر متفق ہے کہ یہ شو بری طرح پٹ گیا اور اس پر پی ٹی آئی کے لوگ رنگ برنگ انداز میں بغلیں بھی بجانے لگے ہیں لیکن سب سے زیادہ رنگین تبصرہ چودھری فواد نے دیا ہے، وہ اگرچہ پی ٹی آئی کے ترجمان نہیں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپنے مزاحیہ پن سے جب تک عوام کو نہ رجائیں ان کو صبر نہیں آتا۔ان کا فرمانا ہے کہ جلسہ گاہ کے نصف حصے پر اسٹیج کا منج سجایا گیا تھا تاکہ دیکھنے والوں کو لگے کہ اسٹیڈیم کچاکچ بھرا ہوا ہے، اب قلقلا خان فرماتے ہیں چودھری فواد سے اس بار بھول ہوگئی اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ سامعین کیلئے اسٹیڈیم کا صرف ایک چوتھائی حصہ مختص کیا گیا تھا باقی تین حصوں پر این آر او مانگنے والے بیٹھے تھے تو بہتر ہوتا۔ ایک پی ٹی آئی کے ٹائیگر کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کچھ بھی کرلے اسے عمران خان این آر او نہیں دیں گے لیکن لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب مریم نواز نے اور اسی طرح دیگر لیڈروں نے چیخ چیخ کر کہا کہ عمران خان این آر او مانگ رہے ہیں مگر ان کو این آر او نہیں دیا جائیگا۔ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں این آر او نہیں دیا جائیگا، یہ خیر سے سیاسی حربے ہوتے ہیں جس کے مقاصد یہ ہوتے ہیں کہ مخالفین کو نیچے سرکا دیا جائے اور خود کی بالادستی اُبھاری جائے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے چہیتوں کے خون کو گرمایا جائے۔ اس مرتبہ پی ڈی ایم کے جلسہ میں ایک تشویشناک بات یہ ہوئی کہ حزب اختلاف کے لیڈر اپنی تقریر میں براہ راست نام لیکر مبینہ سلیکٹروں سے مخاطب ہوئے اسی طرح مولانا فضل الرّحمان 2018 کے انتخاب میں پیچھے رہ گئے، تب سے وہ بھی بڑی زہرآلود انداز میں دل کا غبار نکال رہے ہیں۔ انہوں نے اس جلسہ میں بھی وہی ولولہ دکھایا، ویسے جب پی ڈی ایم کا جلسہ ہونے جارہا تھا تب سے طرہ باز تبصرہ نگار اور اینکر پرسن یہ اینکی پھینکی کئے جارہے تھے کہ پی ڈی ایم نے حکومت کی اٹھائیس شرائط مان لی ہیں اور ان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ پیغام مل گیا ہے کہ وہ غیرجانبدار ہے تب سے پی ڈی ایم کے لیڈروں نے ان کے بارے میں اپنی زبان بندی کرلی ہے اور اب ان کا پورا فوکس عمران خان کی ذات ہے چنانچہ نواز شریف جنہوں نے پی ڈی ایم کی تشکیل کے موقع پر یہ کہا تھا کہ عمران خان نیازی ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں ہے بلکہ تمہارے سلیکٹرز سے ہے، لیکن اب ان کا رخ صرف عمران خان کی طرف مڑ گیا ہے، سوشل میڈیا پر بھی اس انکشاف کو بڑا اُچھالا جاتا رہا ہے اور جب پی ڈی ایم کے جلسے میں بڑے بڑے لیڈروں سے قبل جن لیڈروں نے خطاب فرمایا انہوں نے سلیکٹرز کے بارے میں کوئی حرف ادا نہیں کیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ جو بات کافی دنوں سے غیرجانبداری کی چل رہی ہے وہ سچ ہے لیکن جب مرکزی لیڈروں نے دھواں دھار الفاظ پھینکے تو انہوں نے تمام تبصرہ نگاروں کی وکٹیں اُڑا کر رکھ دیں اور تمام مفروضے پلوں کے نیچے سے بہہ گئے۔ بہرحال پی ڈی ایم کے لیڈروں نے جس انداز میں لفاظی کی ہے اس سے اندازہ یہ ہو رہا ہے کہ ان کا غصہ نیا نیا ہے جو کسی طور ملک کے حق میں خطرے سے پاک نہیں ہے، ایسے حالات اسی وقت پیدا ہوجایا کرتے ہیں جب ملک میں ہرسو گھٹن چھا جائے اور سانس لینے کیلئے ہاتھ پیر مارنا ہی پڑجاتے ہیں، کچھ ایسی ہی حالت ملک عزیز کی نظر آرہی ہے، حالات میں بگاڑ اس وقت بے لگام ہوکر عود کر آتی ہے جب ایک طاقت دوسری طاقت کے وجود کو تسلیم نہ کرے اور یکطرفہ خود کو ہی واحد طاقت سمجھ بیٹھے، سیاست ہو یا حکومتی ایوان ہو یہ حقیقت ہے کہ اس کو چلانا کسی واحد طاقت کا بس نہیں ہے اگر حکومت خود کو ہی طاقت کل سمجھ بیٹھے اور حزب اختلاف کو قبول نہ کرے تو یہاں سے ہی ہولناک تباہی کا سین شروع ہو جاتا ہے۔ اگر دنیا میں واحد طاقت ہوتی تو امریکا کا ون ورلڈآڈر ناکام نہ ہوتا۔ امریکا کے دنیاوی وسائل کو پرکھ لیا جائے اور مدمقابل طالبان کے وسائل کی چھان پھٹک کرلی جائے، اس کے علاوہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بڑی طاقت کو چھوٹی طاقت نے ہی شکست دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں شفاف بتا دیا ہے، چنانچہ جنگ ہو یا محبت ہو یا سیاست ہو یا بڑی سے بڑی کوئی مشکل ہو اس کے سلجھنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ مفاہمت کا ہے۔ بھٹو مرحوم سے سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ بھی مفاہمت کے راستے پر آلگے تھے، یہ الگ بات ہے کہ اس راستے کو خلائی مخلوق نے تہس نہس کر دیا اس میں بھی بھٹو مرحوم کی غلطی تھی کہ انہوں نے بہت دیر کر دی تھی۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''