1 191

دشمن اتنا سادہ نہیں

ایک چھوٹی سی خبر آئی ہے کہ افغانستان نے چابہار کے راستے جس کی طرف اپنا سامان روانہ کیا اس سے پہلے ایک اعلان تھا جو ایران کی جانب سے ہوا جس نے بھارت کو اپنے چابہار منصوبے سے نکال باہر کیا۔بظاہر دونوں خبروں میں ایک ہی خبر مشترک محسوس ہوتی ہے کہ یہ دونوں ہی خبریں چابہار کے حوالے سے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ چھوٹی خبریں جن کی جانب کئی بار ہم نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے کئی بار انہیں بس معمولی اہمیت کا سمجھتے ہیں نہ صرف پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہیں بلکہ حال پر بھی انگے گہرے اثرات ہیں۔ یہ وہ معاملات جنکے لئے پاکستان میں ابھی کسی کو فرصت ہی نہیں۔ہم چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں،گندم کے بحران کے بارے میں مشوش اور متفکر ہیں۔ہمیں ملک میں بد عنوانوں کی گرفت نہ ہوسکنے کا خیال رات کو پرسکون نیند سونے نہیں دیتا اورادھر حال یہ ہے کہ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔پاکستان میں سی پیک کے بارے میں ابھی سوچ بچار کی جارہی تھی اس وقت بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری کا آغاز کردیا ہوا تھا۔ایران کے ساتھ ان کے تعلقات بہترین نہج پر گامزن تھے اور وہ چابہار میں سرمایہ کاری کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہے تھے۔زاہدان ریلوے کے ذریعے ایک ایسے تجارتی راہداری بنی تھی کہ بھارت،ایران ،افغانستان کے دن بدل جاتے اور پاکستان بہترین جغرافیائی محل وقوع دھرا کا دھرا رہ جاتا۔پاکستان میں مٹھی بھر کچھ لوگ چیختے چلاتے رہے ،اس خطرے کا احساس دلاتے رہے اور س میں ،میں نے بھی کچھ ذرہ برابر حصہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے سو کوئی فائدہ نہ ہوا۔لوگوں نے کئی بار حکومت پاکستان کی اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی ۔ای سی او جیسے فورم پر بات بھی ہوئی وسط ایشیائی ریاستوں کو بھارت میں تجارتی حوالے سے بہت کشش دکھائی دیتی تھی اور پاکستان کے ذریعے بہت کم سرمایہ کاری سے بھارت تک پہنچا جا سکتا تھا۔پاکستان کئی طرف سے ان ملکوں سے مربوط ہوسکتا تھا۔ایک راستہ تو وہی ہے جس پر کئی سال قبل ای سی او کے تحت آٹھ ٹرینیںچلائی گئیں۔اسلام آباد،ایرا، استنبول تک یہ راستہ یورپ تک بہت کم وقت میں رابطہ فراہم کرتا ہے دوسرا راستہ براستہ چمن پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔چمن،سپن بولدک سے ہوتا ہوا یہ راستہ افغانستان کے ذریعے وسط ایشیائی ملکوں کو اس حصے سے ملاتا ہے ۔اسی طرح افغانستان کے ذریعے ایک دوسرا راستہ بذریعہ طورخم پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔اس راستے کو بھی افغانستان میں ایک سرکلر ریلوے کے ذریعے مختلف وسط ایشائی ملکوں، ازباکستان، تاجکستان سے جوڑا جانا تھا۔افغانستان کے اندرسرکلر ریلوے سے مراد ایک ایسی ریلوے تھی جو افغانستان کے اندو وسطی علاقوں میں سے ذرا ہٹ کر ملک کے بیرونی کونوں پر ایک ریلوے لائن تھی جو وسط ایشیائی ملکوں سے ایک طرف ملنی تھی اور دوسری جانب پاکستان سے اپنا رابطہ استوار کرتی۔وسط ایشیائی ممالک کی جانب سے چند ملکوں نے اپنا رابطہ افغانستان کے اندر مخصوص مقامات تک بذریعہ ریل استوار کرلیا ہے۔پاکستان میں بات فیزبیلٹی کی حد تک تو ہوچکی ہے لیکن اس سے آگے اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔ افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری بھی بے شمار ہے۔کئی معدنیات کی کانیں بھارتی سرمایہ کاری کی نذر ہو چکی ہیں۔چابہار سے چین کی جانب افغان تجارتی مال کی جو پہلی کھیپ روانہ کی گئی اس میں بھارت کی کس قدر مدد شامل ہوگی اسکی تحقیق تو کرنا ہوگی ۔اہم بات یہ منظر ہے جس میں چاہ بہار سے ایران بھارت کو فارغ کرچکا۔بھارت نے چابہار میں کن سرگرمیوں کو ملحوظ رکھا اور کس باعث ایران اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوا اس میں کوئی بات ایسی پوشیدہ نہیں۔زاہدان ریلوے ٹریک کی بہرحال کسی مناسب تجارتی منزل سے وابستگی اور رابطہ بھارت کے ساتھ معاہدے کا حصہ تھی اور وہ معاہدہ ہی اس حد تک پایۂ تکمیل تک نہ پہنچایا جا سکا کیونکہ بہرحال بھارت کا مرکز نگاہ کچھ اور تھا۔ایسے میں افغانستان کی جانب سے چا بہار کا تجارتی استعمال اور سرگرمیوں کا آغاز کئی اہم پہلوئوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔افغانستان میں بھارتی موجودگی کے بارے میں کسی کو شک نہیں چابہار کی بندرگاہ سے فارغ ہوجانے کے باوجود بھی بھارتی روابط بھی منقطع نہ ہوئے ہونگے۔پاکستان میں تو ایران کی جانب سے چابہار منصوبے سے بھارت کو نکال دیئے جانے کے حوالے سے ایک عمومی اطمینان محسوس کیا گیا اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ شاید یہ اللہ کی جانب سے پاکستان کی مدد آن پہنچی ہے ،اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن پھر بھی جانے کیوں دل کو یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں پھر وہ جنہوں نے نہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی نہ کوئی جدوجہد کی ،ان کو یہ آسانی کیونکر ملے گی۔دشمن اتنا سادہ بھی نہیں کہ ہار مان لے۔انکی سازش اور مسلسل سازش تو ہمیں پاکستان کے اندر بھی دکھائی دیتی ہے سو ایسا لگتا ہے کہ ہم سادگی سے ایک بار پھر سازش کی کسی نئی کیفیت کا شکار ہونے والے ہیں ذرا احتیاط لازم ہے اگر ہم اس جانب بھی نگاہ کریں تو عین ممکن ہے ہمیں حقیقت دکھائی دے۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!