دعوتِ خود احتسابی

ہر سال کی طرح امسال بھی محرم الحرام کی آمد سے قبل ملک بھر میں امن کمیٹیوں کے اجلاسوں میں امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے متنازعہ تقاریر سے اجتناب، اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں، دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں، کی دلکش باتوں کے ساتھ اتحاد وحدت کی ضرورتوں پر تقاریر و بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جس اہم سوال کو ہمارے ہاں ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا امن و وحدت، اتحاد بین المسلمین وغیرہ کی ضرورت صرف محرم الحرام میں ہی پڑتی ہے نیز یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سال کے گیارہ ماہ جو چیزیں بظاہر غیر اہم سمجھی جاتی ہیں اسلامی سال کے پہلے مہینے میں ان کی ضرورت دوچند ہو جاتی ہے؟ سماجی وحدت، مختلف نظریات و خیالات اور عقائد کی تعلیمات کا احترام ہر معاشرے کی اولین ضرورت ہے پاکستان کا آئین شہریوں کے سیاسی، مذہبی معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی نہ صرف ضمانت دیتا ہے بلکہ اس امر کی بھی یقین دہانی کرواتا ہے کہ کسی کو انفرادی یا گروہی طور پر دوسروں کے معاملات و عقائد میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں، افسوس کہ دستور کی دوسری بہت ساری شقوں کی طرح اس شق کی حقیقت فقط یہی ہے کہ یہ دستور میں لکھی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی اولین ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے جب ریاست ہی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتے اور سنگین الزامات کی زد میں رہے تو غیر ریاستی کرداروں سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ قانون کی حاکمیت اور سماجی وحدت کی ابدی ضرورت کے سامنے سرتسلیم خم کریں، اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے کہ محرم الحرام کا چاند جبر و استحصال اور طبقاتی بالادستی کے خلاف مسلم سماج کو متحد کرنے کا ذریعہ بنے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی اندیشوں، وسوسوں اور عدم برداشت کے مظاہروں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے یہ عمومی تاثر ابھرتا ہے کہ محرم الحرام کا چاند دکھائی دیتے ہی ملک پر خدا جانے کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی، ایک ایسا ملک جس کی93 فیصد کے لگ بھگ آبادی مسلمان ہو اور اس امر کی دعویدار بھی کہ اسلام دین فطرت ہے، اسلامی تعلیمات کی حقانیت انسانی سماج میں تازگی بھردیتے ہیں، اس معاشرے میں بعض مہینے اور مہینوں میں آنے والے ایام مختلف الخیال طبقات کے لوگوں کیلئے مختص ہوکر رہ جائے یہ بذات خود بہت بڑا ظلم ہے، مسلمانان پاکستان کو ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ دین فطرت کے پیروکار فطرت کے تقاضوں پر لٹھ برداری کیوں کرتے ہیں۔ اسلام جس معاشرتی وحدت کی دعوت اور اس پر عمل کو حسن زندگی قرار دیتا ہے، ہمارا سماج اس سے خالی کیوں ہے؟۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ان سوالات کے جوابات سے مستقبل کے لئے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ محرم الحرام صرف اسلامی ہجری کے نئے سال کا پہلا مہینہ ہی نہیں بلکہ یہ دعوت حریت فکر کی تجدید کا مہینہ ہے۔ اسلامی سال کا یہ اولین مہینہ مسلمانان عالم کی طرح مسلمانان پاکستان کو بھی اس امر کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا سچ وقت پر بولیں ظالم کے خلاف مظلوم کی نصرت کریں۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی نصرت کی دعوت کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ تلوار یا بندوق اٹھالی جائے، اس کا مقصد یہ ہے کہ اپنے معروضی
حالات کے مطابق حق پرستی کی تحریک میں بساط کے مطابق حصہ ڈالا جائے۔ دکھی انسانیت کی خدمت، علم و تحقیق کی ترویج، انصاف کی بالادستی، مساوات، ریاستی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عوام کے حق حاکمیت کے لئے منظم جدوجہد میں شرکت یا اپنی توفیق کے مطابق حصہ ڈالنے کو ہی دعوت حریت فکر کی قبولیت کہا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں محرم الحرام کے حقیقی پیغام کو فراموش کرکے نان ایشوز پر توانائیاں برباد کی جاتی ہیں، یہ درست ہے کہ ہمارے واعظین اور خطباء کے ساتھ اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت حریت فکر کے بنیادی مقاصد کو لوگوں پر اجاگر کریں، انہیں یاد دلائیں کہ جبرواستحصال اور عدم مساوات کے خلاف آواز بلند کرنا پورے مسلم سماج کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ محرم الحرام کسی ایک طبقہ کا نہیں تمام مسلمانوں کا مہینہ ہے، جبرواستحصال اور عدم مساوات کے خاتمے کے لئے متحد ہوکر جدوجہد کرنے سے ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے کہ جو عوام کے حق حکمرانی کی راہ ہموار کرے۔ اہل دانش واعظین اور خطباء لوگوں کو یہ ضرور بتائیں طمع اور جمع سے محفوظ رہ کر اپنے چار اور کے مستحقین کی اعانت کرنا ہی شرف آدمیت ہے۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جانا چاہئے کہ ملکی قانون کی حاکمیت مقدم ہے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کے سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی حقوق کا احترام کرے اور اپنے حقوق کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ محرم الحرام ہمیں اس امر کی یاد دلاتا ہے کہ یکم محرم سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے اس دن مناسب ترین عمل یہ ہوگا کہ ہم گزشتہ برس کے معاملات کا حساب کریں اور دیکھیں کہ پچھلے برس ہم نے انفرادی اور گروہی طور پر سماجی ارتقاء میں اپنا حصہ ڈالا، اپنے وسائل سے کتنے بے نوائوں کی مدد کی، ہماری زبانوں اور ہاتھوں سے چار اور کے لوگوں کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی، گزرے برس کے اس حساب کے بعد ہی نئے سال کے لئے یہ عزم کیا جاسکتا ہے کہ پچھلے برس کی گئی غلطیوں، وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں سے رواں برس بچ کر معاملات کئے جائیں گے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں دعوے تو بڑے بڑے ہوتے ہیں لیکن عمل کی دنیا دعوئوں کے برعکس ہے۔ علم و تحقیق کو مسلم سماجوں میں رتی برابر اہمیت نہیں دی جاتی۔ علم کی جو تشریح ہمارے ہاں کی جاتی ہے اس پر ہنسا اور گاہے رویا ہی جاسکتا ہے، سماجی طبقات کی طرح ہمارے واعظین، خطباء اور اہل دانش کے بھی طبقے بن چکے ہیں، رہی سہی کسر فرقہ پرستی نے پوری کردی ہے ۔ ایک طرف بتایا جاتا ہے کہ قرآن مجید تفرقے سے باز رہنے اور وحدت کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کی دعوت دیتا ہے، دوسری جانب عملی صورت یہ ہے کہ وحدت کی رسی کے ٹکڑے کرنے میں ہر شخص دوسرے پر سبقت لے جاتا دکھائی دیتا ہے، یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ ہمیں خوداحتسابی کو فروغ دینا ہوگا، خوداحتسابی واحد ذریعہ ہے جو ماضی کا کھلے دل سے تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کرسکتی ہے، اسی کی بدولت ہم یہ سمجھنے، جاننے کی شعوری کوشش کرسکتے ہیں کہ ہماری ناکامیوں اور مسلط شدہ جبر و اسحتصال کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امسال محرم الحرام کے مہینے میں عبادات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہم خود احتسابی کو بھی مقدم سمجھیں گے تاکہ ماضی کے ماہ و سال کے برعکس اس سال ایسی سماجی وحدت کی بنیاد رکھی جا سکے جو اتحاد و امن کی عملی تفسیر ہو، یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر شخص اپنے حصے کا کردار بطریق احسن ادا کرنے کی شعوری کوشش کرے گا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار