دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب :یونیورسٹی کیمپس

پشاور شہر کو پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا ۔پشاور شہر کا سب سے خوبصورت علاقہ پشاور یونیورسٹی کا کیمپس تھا ۔ اسلامیہ کالج کی خوبصورتی ، کیمپس کے خوبصورت سبزہ زار ، مثالی صفائی ، بہترین سیکیورٹی سسٹم ، بااخلاق ملازمین ،کھیل کے وسیع وعریض سر سبز و شاداب میدان ، ملاوٹ سے پاک دودھ، اور ارزان نرخون پر دستیاب خوراک و اجناس اور علمی مجلسوںاور صحت مند مباحثوں کے لیے مشہور یہ کیمپس جس پر ساٹھ ہزار سے زیادہ نفوس رہتے ہیں ۔ اب بدانتظامی اور آلودگی کا منظر پیش کرتا ہے ۔ اس کیمپس پر سینکڑوں کی تعداد میں رکشے ، سوزوکیاں اور فلائنگ کوچ ، اتنے ہی تعداد میں ریڑھے اور تمبو ٹانک کر گندے پکوان بیچنے والے ، ہر طرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ہیں ۔ یونیورسٹی کی کافی شاپ مارکیٹ میں کوئی جوس اور کافی کی دکان نہیں ہے بلکہ ہر طرف پشاوری چپل بنانے والوں کی دکانیں ہیں ۔ سبزی کی دکانوں پر سب چیزیں گلی سڑی اور من مانی نرخوں پر فروخت ہورہی ہیں ۔ یونیورسٹی کے مارکیٹوں میں اتنے ریڑھے بان کھڑے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ یونیورسٹی نہیں ہے بلکہ کسی گاؤں کا میلہ ہے ۔ یونیورسٹی میں سیکیورٹی کا انتظام بالکل ختم ہوگیا ہے ۔ چوریاں معمول بن گئیں ہیں ۔ یہاں تک کہ چور بجلی کی تاریں اور گیس کے میٹر تک چرا کر لے گئے ہیں ۔ کیمپس کے ہر دروازے پر پولیس کی چوکی ہے لیکن ان چوکیوں سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں بھکاری اور کچر ا چننے والے داخل ہوکر یونیورسٹی میں دندناتے پھرتے ہیں ۔ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کیمپس پر چھاپے مار رہے ہیں ۔ یونیورسٹی میں دستیاب خوراک انتہائی ناقص ہے ۔ یونیورسٹی کی سڑکوں پر گزرنا محال ہوگیا ہے ہر جگہ گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں ۔ پشاور بھر کے اوباش دن بھر یونیورسٹی میں غریب و مظلوم طالبات کوہراسان کرنے میں مصروف ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی ان کو کچھ بھی کہے ، سرکاری نمبر پلیٹوں والی سینکڑوں گاڑیاں سرکاری افسران کے بچے اور رشتہ دار روز کیمپس لے کر آتے ہیں اور پورا دن ان گاڑیوں میں وہ ادھم مچاتے ہیں کہ لگتا ہے یہ سب گینگسٹرز ہیںاور یونیورسٹی کیمپس ان کی مقبوضہ ہے ۔ سینکڑوں کی تعداد میں بھکاری جو مرد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہیں یونیورسٹی کی مارکیٹوں اور اب ڈپارٹمنٹس میں بے دھڑک گھوم پھر رہے ہوتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے کھیلوں کے میدان حفاظت اور نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے اجڑ چکے ہیں ۔ یونیورسٹی میں منشیات کا استعمال اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ یونیورسٹی کیمپس پر سیاسی جماعتوں کے پروردہ لوگوں کی سرگرمیاں اتنی زیادہ ہیں کہ شاید ہی ماضی میں اس کا کوئی تصور کرسکتا ہو۔جو بھی سیاسی رہنما یا ورکر جب چاہے اور جہاں چاہے کوئی سیاسی جلسہ کرسکتا ہے ۔ ایسا بھی ہوا کہ بلوچستان سے سمگلر یونیورسٹی کیمپس پر آکر تقریبات منعقد کرتے رہے ۔ حالیہ سابق وائس چانسلر ایک سیاسی جماعت کے ہر تقریب میں بہ نفس نفیس خود موجود ہوتے تھے اور یونیورسٹی کے تمام وسائل ان سیاسی لوگوں کو مفت میں دستیاب تھیں ۔ یونیورسٹی میں حفاظت پر مامور لوگوں کو نکالا گیا ،پھر ایک پرائیویٹ کمپنی کو یہ کام سونپا گیا اسے بھی ایک برس سے زیادہ ہوگیا ہے فارغ کردیا گیا ہے۔ کیمپس میں لوگ مرتے رہے مگر کسی کو اس سے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا ۔ اب یونیورسٹی کیمپس پر سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ یونیورسٹی کیمپس میں رہنے والے مکین اب خدا کے آسرے پر زندگی گزار رہے ہیں ۔جبکہ یونیورسٹی کو محفوظ بنانے کے لیے کیمپس پیس کورکے نام سے پولیس کے چار سو سے زیادہ عملے کی ایک مکمل فورس موجود ہے جس کی سربراہی بڑے درجے کا ایک افسر کرتا ہے ۔ کیمپس پر ان کو تمام سہولیات مہیا ہیں لیکن اس کے باوجود صورتحال اتنی خراب ہے ۔ یونیورسٹی کیمپس میں گھروں کی نگداشت کا کوئی عملی انتظام نہیں ہے جبکہ ہر مہینے ملازم کی تنخواہ سے منٹینس کے نام پر ہزاروں روپے کاٹے جاتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے گھروں کو سیوریج سے جوڑا ہی نہیں گیا مگر ہر مہینے سیوریج کے پیسے تنخواہوں سے کاٹے جاتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے درخت باہر سے آئے لوگ کاٹ کاٹ کر لے کر جارہے ہیں مگر پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ یونیورسٹی کی دکانوں میں نوٹس اور گائیڈز کی فروخت عام ہے ۔جبکہ یہ کام یونیورسٹی کے حدود میں غیر قانونی ہے ۔یونیورسٹی کے ہاسٹلوں کی حالت اتنی خراب ہے اور اس میں اتنے زیادہ آوٹ سائیڈرز رہائش پذیر ہیں کہ جس کا کوئی حساب ہی نہیں ہے ۔ پچھلے رمضان میں سیاسی طلبا تنظیموں نے یونیورسٹی کے بڑے میدانوں میں رات کو فلڈ لائٹ میں کرکٹ اور فٹ بال کے ٹورنامنٹ پچیس دن تک منعقد کیے جس میں ان سیاسی تنظمیوں نے تین لاکھ ساٹھ ہزار ووٹ کے بڑے بڑے لائٹس روشن کیے تھے اور یہ ساری رات جلتی رہتی تھیں اور اس کی بجلی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں اور کھمبوں سے لیکر دی جاتی تھی ۔ جس پر اگر رف اندازہ بھی لگایا جائے تو چار پانچ کروڑ کا خرچہ آیا ہوگا ۔ مگر مجال ہے کسی نے اس غیر قانونی کام کو روکا ہو۔ یہ خوبصورت کیمپس جو کسی زمانے میں عالم میں انتخاب تھا اب بدانتظامی اور چوروں کی آماج گاہ بن گیا ہے ۔ آس پاس کے درجنوں دیہات اور آبادیاں یونیورسٹی کی سڑکوں کو ٹریس پاسنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔یوں یہ خوبصورت اور بے مثل کیمپس اب بے ترتیبی ، آلودگی ، کثافت ،بدانتظامی کی وہ تصویر پیش کررہا ہے جس کاتصور اس کیمپس پر پڑھنے والا کوئی بندہ نہیں کرسکتا ۔ وہ جس ناسٹلجیہ کے ساتھ کیمپس دیکھنے آتے ہیں ۔ وہ انہیں کہیں بھی دستیاب نہیں ہوتا اور وہ مایوس لوٹ جاتے ہیں ۔
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیا ر کے

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں