دورے کا حاصل ؟

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو افغانستان میں عزت و احترام سے ضرور نوازا گیا اور ان سے خوشگوار ماحول میں ملاقات بھی ہوئی لیکن ساتھ ہی طالبان رہنماء نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستانی حکومت کو پیغام دیں کہ وہ افغان مہاجرین کے خلاف ظالمانہ پالیسی پر نظر ثانی کریں ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے روئیے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مخالفت اور مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔اس درورے سے امید وابستہ کرنا حقیقت پسندانہ اس لئے بھی نہیں کہ اس موقع کو بھی افغان قیادت نے اپنا نقطہ نظر مزید اجاگر کرنے کاموقع گردانا بہرحال اس کے باوجود توقع کی جانی چاہئے بظاہر کی اس صورتحال کے برعکس درون خانہ کچھ مفاہمت اور بہتری کے لئے مساعی کوآ گے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہو جس کے نتائج کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔ اس دورے میں ممکن ہے کہ صوبے میں جے یوآئی کے جلسوں کو محفوظ بنانے میں سرحد پار سے کردار کی ادائیگی اور شرپسند عاصر کو شرپسندی سے باز رکھنے کابھی مطالبہ کیا گیا ہو اس حد تک ممکن نظر آتا ہے لیکن دوسری جانب عین اس موقع پر باجوڑ میں دہشت گردی کی بڑی واردات بھی اپنی جگہ کسی ممکنہ پیغام اور ردعمل کا حصہ ہو سکتا ہے جہاں جے یو آئی کو سخت اور مشکل حالات کا سامنا ہے ہردوصورت میں بہرحال سلسلہ جنبانی پیغام رسانی اور حالات میں بہتری لانے کی مساعی احسن عمل کے زمرے میں آتے ہیں باربار کی ناکامیوں کے بعد بھی اسے جاری رکھنا چاہئے اور امید رکھنی چاہئے کہ بالاخر اس طرح کے روابط مثبت اور نتیجہ خیز ہوسکیں گے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟