دوسرا افغانستان

روس اور یوکرین کے درمیان اس سال کے قریباً آغاز سے ہی شروع ہونے والی جنگ میں یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ ایک نہایت ہی چھوٹی جنگ ہوگی جو جلد نمٹ جائے گی کیونکہ ایک طرف طاقتور روس تھا جبکہ دوسری طرف ایک کمزور ملک یوکرین جس کی صلاحیت خود سے اتنے بڑے اور جدید ہتھیاروں سے لیس ملک سے لڑنے کی نہیں ہوگی۔ مگر ایسا کیا ہوا کہ یہ جنگ طویل سے طویل تر ہوتی گئی اور نوبت اب یہاں تک آگئی ہے کہ مشرقی یوکرین کے جو علاقے روس نے فتح کئے تھے اب ان سے بھی روس کو ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے ؟ کیا اس شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے روس کوئی انتہائی قدم اٹھا کر جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے یا پھر یوکرین روس کے لئے دوسرا افغانستان بن سکتا ہے ؟
روس بلاشبہ یوکرین سے عسکری طاقت میں بہت آگے ہے جسے شکست دینا روس کے لئے نہایت ہی آسان ہدف سمجھا جا رہا تھا۔ اور یہی سوچ کر روس نے بھی اپنی فوج کو زیادہ جلدی کرنے پر زور نہیں دیا بلکہ تدریجی طور پر آہستہ سے پیش قدمی کرنے کو کہا۔ دونباس کے علاقے چونکہ پہلے ہی مقامی باغیوں نے آزاد کرا کر وہاں خودمختار ریاستیں قائم کردی تھی اس لئے روسی فوج جنوبی یوکرین کے بجائے شمال میں کیئیو کے علاقے پر زیادہ توجہ مرکوز کیئے ہوئی تھی۔ اسی سست روی نے ہی دراصل مغربی طاقتوں کو مزید موقع فراہم کیا کہ وہ یوکرین کو مزید رسد فراہم کرسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ففتھ جنریشن وار فیئر کا استعمال کرتے ہوئے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبروں اور افواہوں سے بھی روسی فوج کو تذبذب میں ڈالا۔ مثال کے طور پر یوکرین نے اعلان کیا کہ وہ بہت جلد جنوب میں خریسون کے علاقوں پر حملہ کرنے والے ہیں۔ یہ سن کر روس نے اپنی تمام تربیت یافتہ فوج کو جنوب کی طرف روانہ کردیا جبکہ شمال میں صرف ان فوجیوں کو تعینات کیا جو غیر تربیت یافتہ تھے یا عام لوگوں میں سے بھرتی کیئے گئے تھے۔ اس کا فائدہ اٹھاکر یوکرین نے جنوب کے بجائے شمال میں حملہ کرکے اپنے علاقے با آسانی روس سے واپس لے لئے جبکہ روسی فوج صرف منہ تکتی رہ گئی۔ اس کے علاوہ آبنائے کرچ میں روس کو کرائیمیا سے ملانے والا 3.2 ارب ڈالر کی لاگت سے بنائے گئے پل کو ایک غیر روایتی طریقے سے دھماکہ خیز مواد سے اڑاکر زیلینسکی کی حکومت نے پوتن کو ایک ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس کی وجہ سے اب وہ شاید مجبور ہوجائیں کہ وہ ایک انتہائی قدم اٹھائیں۔ اگر پوتن اسی طرح غیر روایتی جنگی طریقوں پر ہی اکتفا کرتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ یہ جنگ جیت بھی جائے تاہم اسے دہائیوں تک اس جنگ میں پیسہ اور فوجی بڑے پیمانے پر جھونکنے پڑیں گے جس کا وہ متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ اسے خود روسی عوام کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسے کوئی پرواہ نہیں کہ عالمی جنگ شروع ہو یا نا ہو مگر یہ بات یقینی ہو کہ روس کو اتنی ضربیں دی جائیں کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر مجبور ہوجائے اور بالآخر پوری دنیا کو اس جنگ کا حصہ بننا پڑے۔ کرچ پل کی تباہی کی بعد روس نے بالکل ویسا ہی مظاہرہ کیا جیسا زیلینسکی چاہتے تھے۔ اور پورے یوکرین پر روس نے شہری آبادی کی پرواہ کیئے بغیر ایک ہی دن میں 75 سے زائد میزائل داغے۔
یورپ جو اس وقت پہلے ہی معاشی اور کسی حد تک توانائی کے بحران کا بھی شکار ہے اس تذبذب میں مبتلا ہے کہ آیا اسے مزید یوکرین کی جنگ میں حصہ لینا چاہیئے یا پھر اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے روس کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے زیلینسکی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ کیونکہ اگر ایک مرتبہ پوتن آپے سے باہر ہوا تو وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ تاہم وہ بھی اس انتظار میں ہے کہ کب سردیوں کا آغاز ہوگا اور جرمنی سمیت یورپ بھر میں توانائی بحران اپنے عروج پر پہنچے گا جو بالآخر انہیں روس سے مذاکرات پر مجبور کردے گا۔ لیکن اگر یورپ نے توانائی کے لئے نیا ذریعہ تلاش کرلیا (جیسا کہ وہ پہلے ہی قطر اور مشرقِ وسطی سے مذاکرات کر رہا ہے)تو پھر روس کے لئے ایک نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔ وہ جنگ جسے وہ چند ہفتوں کی مار تصور کرتا رہا ممکن ہے کہ وہ اس کے لئے افغانستان کے بعد ایک اور گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پوتن بھی یوکرین میں وہی غلطی دہراتا ہے جو کمیونسٹ روس کے سربراہ نے1979میں افغانستان کو فتح کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھ کر کی تھی یا پھر یہ کوئی نئی حکمتِ عملی اپناکر یوکرین کو واقعی روس کا تابع کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ جنگ اب کسی غیر یورپی نہیں بلکہ ان کے اپنے گھر میں ہو رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ کسی بھی حد تک جائیں گے یوکرین کو روسی قبضے سے بچانے کے لئے جو بادل ناخواستہ دنیا کو تیسری جنگِ عظیم کی دہلیز پر بھی کھڑا کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی