دوطرفہ حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کا کسی مذہب، زبان یا علاقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نفرت پر مبنی سانحہ پر دکھی ہوں، ہر شہری کا تحفظ یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جڑانوالہ کے چرچ میں خطاب کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ وہ معاشرہ ہمیشہ قائم رہتا ہے جہاں ایک دوسرے کا احساس کیا جائے۔ اقلیتوں کے تحفظ کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بنانے میں مسیحی برادری کا اہم کردار ہے، اقلیتی برادری کا تحفظ کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، انسانیت کے دشمنوں کا متحد ہو کر مقابلہ کریں گے، کوئی معاشرہ عدل و انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اقلیتوں کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ کوئی بھی معاشرہ عدل و انصاف سے ہی قائم رہ سکتا ہے، اقلیتوں کے جان و مال پر کوئی بھی شخص، گروہ حملہ آور ہوگا تو ریاست مظلوم کے ساتھ ہوگی۔ ریاست کو مظلوم کے ساتھ پائیں گے، ظالم کے ساتھ نہیں پائیں گے۔ دشمن ہمیں اپنے لوگوں کا تحفظ کرنے میں تیار پائیں گے، دشمن کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے۔ انوارالحق کاکڑ نے یہ بھی کہا کہ ہم میجورٹی میں ہیں، لیکن میجورٹی ازم پر یقین نہیں رکھتے۔ آپ جھنڈے میں محض سفید رنگ نہیں ہیں، یقین دلاتا ہوں ہمارا رویہ الفاظ سے زیادہ عمل سے نظر آئے گا۔وطن عزیز میں اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ اس لئے بھی زیادہ حساس امر ہے کہ دنیا بھر میں یہاں ہونے والے معمولی واقعات کوبھی بڑھا چڑھا کر پیش کرکے پاکستان کوکٹہرے میں کھڑا کیاجاتا ہے اس واقعے کے پس پردہ ممکنہ سازش بھی بیرونی عناصر کے کردارکے امکان کورد نہیں کیا جاسکتا وقتی طور پر اشتعال انگیزی کا جواقعہ ہوا وہ حد درجہ افسوسناک ہے لیکن ساتھ ہی مسلم برادری اور عمائدین کی طرف سے جس قسم کا سلوک اور رویہ اختیار کیاگیا اسے نہ سراہنا بھی زیادتی ہوگی ہمارے معاشرے کاایک تاریک پہلو اس واقعے کا سبب ضرور بنا ہو گا فوری طور پر کیا واقعہ ہوا اور اس کافوری ردعمل کیا تھا یہ جاننا بھی ضروری ہے اس کے بعد ہی معاملات کوجس نظر سے دیکھا جائے وہ موزوں ہوگا اقلیتوں کا تحفظ ہمارے دینی تعلیمات کا حصہ ہے اور مسلمانوں کا دین اور ماضی دونوں اس بات کے گواہ ہیں کہ اقلیتوں کو کس درجہ تحفظ دیا گیا ہے ہمیں اس واقعے پر بیرونی دنیا کے ردعمل سے خائف ہونے کی بجائے اس امر پرزیادہ افسوس ہونا چاہئے کہ یہ واقعہ کیوں کر رونما ہوا اور اس کے پس پردہ مقاصد وحقائق کیا تھے اسے ایک مخصوص نقطہ نظر سے دیکھنے کی بجائے اور کسی ایک فریق کو مطعون کرنے کی بجائے دوطرفہ حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟