دہائی ہے دہائی

وطن عزیز میں کبھی رات بارہ بجے کبھی چھٹی کے روز اور کبھی ریمنڈڈیوس جیسے شخص کو ”انصاف” دینے کے لئے تعجیل کے ساتھ ” مثالی انصاف” دے کر فوری انصاف کے ان دعوئوں کو سچ ثابت کیا جاتا ہے مگر جب بات غریب کی آئے تو قانون اور عدل مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دینے لگتا ہے سول جج کی بیگم کا گھر میں کام کرنے والی بچی پر وحشیانہ تشدد کی ملزمہ کو کسی اور نے نہیں عدالت ہی نے وقتی ضمانت کا موقع فراہم کیا اور اب صلح کی سعی ہو رہی ہے اور ہو بھی جائے گی اس لئے کہ ریمنڈ ڈیوس ہو یا اسلام آباد ہی کے ایک اور جج یا پھر حالیہ واقعے کا ذمہ دار خاندان صلح صفائی کرکے جان چھڑا ہی لیں گے آخر ایک کمزور ریاست ایک کمزور شخص بااثر کے سامنے کب تک ٹھہرے اور ٹھہرنے کا فائدہ بھی کوئی نہیں کیونکہ انصاف والے غریب کے ساتھ نہیں طاقتور کے ساتھ ہوتے ہیں یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ تجربے اور مشاہدے کی بات ہے ریمنڈ ڈیوس کو تو چھوڑیئے وہاں تو قاضی کے بھی پر جلتے ہیں اور انصاف دلوانے والے غیر ملکی طاقتور نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے طاقتور جب سامنے کھڑے ہوں تو منصفین بھی بیوی بچے والے ہی ہو وہ بیچارے کیا کریں عدالتوں کو سیاستدانوں نے کس طرح مذاق بنا رکھا ہے کسی سے پوشیدہ امر نہیں عدالتوں کا احترام سر آنکھوں پر توہین عدالت کو کس کا دل کرتا ہے مگر حقائق کا بیاں اور بین حقائق پوشیدہ نہیں رکھے جا سکتے اس کے بیاں کا مقصد بس توجہ دلانے اور زنجیر عدل کھینچنے کے لئے ہے زنجیر عدل کھینچتے جانا ہمارا کام ہے اور عدل و انصاف منصفوں ‘ حکمرانوں اور ریاست کا کام ہے ہمارے دل پہ جو گزرے بس رقم کرنا ہی بس میں ہے جی جلا کے قرطاس پرجذبات کو لفظوں میں بکھیر کر ہی عام آدمی کے دل کی آواز پہنچانے کی سعی ہوتی ہے مگر کہا جاتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں مگر یہاں پورا ملک اور نظام عدل گونگا بہرا ہے ۔زیادہ پرانی بات نہیں قبل ازیں اسلام آباد کی ایک عدالت صرف پانچ دن میں اسی طرح گھریلو ملازمہ کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے والی مقامی جج کی اہلیہ کی ضمانت منظور کرکے دس سالہ زخمی ملازمہ طیبہ کو ان کے والد کے ساتھ بھیج کر مقدمے پر مٹی ڈال چکی ہے اس مرتبہ تو وحشیانہ تشدد کا ریکارڈ توڑنے والی ملزمہ کی ضمانت قبل از گرفتاری دے دی گئی پولیس کی جانب سے اچھی کوشش ضرور ہو رہی ہے لیکن کسی اچھائی کی کوئی امید نہیں پہلے والے مقدمہ میں بھی بغیر کسی دبائو کے راضی نامہ کے بیان حلفی جمع ہوئی تھی اب بھی ایسا ہی ہوتا نظر آتا ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو مقدمہ بازی ہو گی مگر اس کی استطاعت ہوتی تو اپنی بچی کو گھریلو ملازمہ کیوں بناتے مجبوری اور پاپی پیٹ انسان سے بہت کچھ کروا لیتی ہے طیبہ اور خدیجہ دونوں ججوں کے گھر ملازمہ تھیں اور جن سے انصاف کی توقع تھی وہ ہی متشدد اور عدل و انصاف کا نہیں انسانیت ہی کا خون کرنے والے قبیلوں سے ان کی بیگمات کاتعلق نکلا تو کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے المیہ یہ ہے کہ یہاں عمومی طور پر گھریلو ملازمین کو زرخرید غلام سمجھنے کا رواج ہے اور اکثر گھروں میں جسمانی تشدد ایک عام روایت ہے جج کی بیگمات ہوں یا خاتون صحافی یا کوئی اور جس کے ہتھے بھی غریب کی بچی چڑھی تشدد کا نشانہ بنانے اورحبس بے جا میں رکھنے سے گریز نہیں کیا جاتا ان چارہ دستوں کوکوئی پوچھنے والا جو نہیں۔ اس طرح کی بچیوں کو سکول بھیجنا چاہئے مگر پاکستان کے لاکھوں بچوں میں سے
جنہیں سکول بھیجنے کے بجائے ان سے مشقت لی جاتی ہے یہ تصویر کا بھیانک رخ ہے میں ایسے خدا ترس بہت سے خاندانوں کوجانتی ہوں جن کے گھر کام کرنے والی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا احسن بندوبست ہوتا ہے جو اپنی گفتار اور لباس سے نوکر انیاں نہیں گھر کی بچیاں لگتی ہیں جس گھر کے بچوں کے سامنے نوکرانیوں سے بیٹیوں والا سلوک ہوتا ہے اس گھر کے بچوں کی تربیت اور عادت پختہ ہو گی کہ وہ آئندہ کی زندگی میں شوہر کے گھر جا کر دوسروں کو عزت دیں گی اور فطری طور پر وہ اس عادت کا اعادہ کریں گی اور ان کی زندگی اچھی گزرے گی جن کی مائیں ججوں کی بیگمات اور معروف خاتون صحافی جیسی ہوں ان سے کسی کے گھر جا کر اچھائی کی توقع کم ہی ہونی چاہئے ۔ ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ قدرت کا اپنا نظام ہے قدرت کی لاٹھی جب چلنے لگتی ہے تو پھر مہلت نہیں ملتی اور قدرت کی دراز رسی جب کھینچی جاتی ہے تو اس کی گرفت سے نکلنے والا کوئی بھی نہیں خواہ کتنا ہی طاقتور ہو قدرت کی سزا سے کوئی بچ کر نہیں جا سکتا ۔ قدرت ہر کسی کو ایک معین وقت پر خواہ وہ دراز ہویا مختصر مدت مہلت ضرور دیتی ہے کہ اپنی اصلاح کی جائے جو ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ لوگوں کو ان کے گھروں کے بند کمروں میں بھی رسوا کرتی ہے زمینی فرعون یہ یاد رکھیں کہ اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی اور انصاف سے کام نہیں لیا تو انجام اچھا نہیں ہو گا وطن عزیز میں ایوان عدل اور ترازو کے دونوں پلڑوں کا برابر نہ ہونا انصاف کی فراہمی میں تاخیر یا پھر حصول انصاف سے سرے سے مایوسی وہ قضیئے ہیں جو اس طرح کے واقعات کا باعث بنتی ہیں جب بااثر افراد سنگین سے سنگین جرم کرکے بھی بچ نکلیں نظام انصاف کی چھلنی سے بڑی مچھلیاں اچھل کر باہر نکلیں اور ایسا ہونا معمول بن جائے اور چھوٹی و کمزور افراد قانون کی چھلنی میں پھنس جائیں معاشرے سے قانون کا خوف عنقا ہو جائے قانون و عدل با اثر افراد کے لئے موم کی ناک بن جائے تو پھر اس طرح کے واقعات میں خود بخود اضافہ ہو گا ایک جج ایک ڈپٹی کمشنر ایک وکیل ایک پولیس افسر ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت ایک سیاستدان حکمران جج جرنیل جرنلسٹ کوعبرت کا نشان بنا دیا جائے تو دوسرے عبرت پکڑیں جب ایسا نہیں ہو گا اورقانون کا خوف نہ ہوتوبااثر افراد ہر ظلم کرگزریں اور کٹہرے میں بھی ان کی چلے ایوان عدل سے لے کر مہنگے وکیل تک سبھی ان کی دسترس میں ہو تو اس طرح کے واقعات کیوں معمول نہ بنیں یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس میں جسٹس فار خدیجہ کے ٹرینڈ چلنے سے کچھ ہلچل پیدا ہوئی ہے مگر یہ ہلچل بھی نظام ا نصاف کو نہیں ہلا سکتی ایوان عدل کی زنجیریں بج بھی جائیں تب بھی ان کے محفوظ نکلنے کا راستہ ایوان عدل ہی سے نکالا جاتا ہے اس معاشرے کے بے حس افرادکوجتنا کوسیں دل نہیں بھرے گا مگر کب تک ۔یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا فانی ہے یہ زندگی یہ شان و شوکت یہ عہدے حکمرانی ا ور جج کی کرسی سدا بہار نہیں ہوتیں ایک نہ ایک دن سب کچھ چھن جانا ہوتا ہے سفید لٹھے میں لیٹے جب لحد میں اتار کر اوپر منوں مٹی ڈال کر عزیز و اقارب واپسی کی راہ لیں تو منکر نکیر سوال جواب کے لئے آتے ہیں قبر کی اس اندھیرے میں اعمال ہی روشنی اور اعمال ہی سیاہی کا باعث بنیں گے ہمیں یقین ہونے کے باوجود بھی ہم اس سے غافل رہتے ہیں آخر ہمیں ہوش کب آئے گا ہم ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتے ہم من الحیث المجموع ہمارا پورا معاشرہ اس قدر بے حسی کا شکار کیوں ہے کون ہے جو مظلوموں کو انصاف دلائے کس سے فریاد کی جائے کیا ان حکمرانوں سے جو حکومت میں ہوں تو ظالم بن جاتے ہیں اور جب اقتدار چلی جاتی ہے تو ان کے کرتوت شامت اعمال ما صورت نادرگرفت کی صورت اختیار کر جاتے ہیں مگر پھر بھی ان کو ہوش نہیں آتا۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا