4 375

دیدی او ممتا دیدی

مغربی بنگال کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے مخصوص انداز میں ترنمول کانگریس کی تیز طرار رہنما ممتا بنرجی کو مخاطب کرتے ہوئے پکارا دیدی۔۔۔ او دیدی۔۔ نندی گرام سے آپ کا انتخابی صفایا ہوگا، تو مجمع میں ہزاروں لوگوں کے زوردار قہقہوں سے انہیں شاید اپنی انتخابی جیت نظر آ رہی تھی۔ لیکن بنگال کی بیشتر خواتین کو 1975کی مشہور فلم شعلے کا وہ دل دہلانے دینے والا منظر یاد آ رہا تھا جب ایک خطرناک ڈاکو گبر سنگھ مخصوص لہجے میں اپنے ساتھیوں سے پوچھ رہے تھے کہ سانبا! ارے او سانبا! کتنے آدمی تھے؟
شاید مودی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کنٹرول کرنے کے باوجود ان کی یہ ویڈیو وائرل ہوجائے گی اور انتخابی نتائج پر منفی اثر ڈالے گی۔ حالانکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوٹلی اس وقت تک خواتین ووٹروں سے بھری جارہی تھی مگر وہ مودی کے گبر سنگھ والے لہجے کے بعد بی جے پی سے کھسکنے لگیں۔
بنگال کے دانشور طبقے نے کھل کر اس کی بھرپور مذمت کی۔ اپنی بنگالی شناخت، عورت کا احترام اور مذہبی رواداری کو برقرار رکھنے کی ایک ڈیجیٹل مہم شروع کردی جس کے پیش نظر انتخابی حلقوں پر ایک تو ووٹروں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں دوسرا عورتوں نے پہلی بار ممتا کی حمایت میں اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر بنگالی عورت کی مان یعنی احترام کا احساس دلایا۔
بی جے پی نے بنگال کو بھی گجرات کی عینک سے دیکھا اور وہی اپنی روایتی اور مذہبی جوڑتوڑ کی سیاست شروع کر دی۔
بنگال دو ملکوں کے بیچ میں تقسیم تو ہوا ہے مگر بنگالی، ہندو مسلمان کی بجائے قومی تشخص کو عزیز سمجھتے ہیں گو کہ ان میں مذہبی تفریق پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔
آزادی کے بعد مغربی بنگال میں چونکہ پہلے کانگریس اور اس کے بعد بائیں بازو کی حکومت34برس تک برسراقتدار رہی لہٰذا فرقہ پرست جماعتوں کو یہاں اپنی جڑیں گہری کرنے کا اتنا موقعہ نہیں ملا۔ 2000 کے بعد بھارت پر ہندوتوا جماعتوں کا اثر جب گہرا ہونے لگا، بنگال میں اپنے وجود کو قائم کرنا آر ایس ایس کے لیے انا کا مسئلہ بنتا گیا تاہم بنگال گجرات نہیں بن سکا۔
بھارتی انتخابات میں خواتین کا کیا کردار ہے؟
کبھی بنگال کی 30 فیصد مسلم آبادی کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر انہیں تارکین وطن قرار دیا گیا تو کبھی مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے ادارے تشکیل دیئے گئے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق بنگال میں مسلمانوں کی آبادی سالانہ 12 فیصد سے کم ہو رہی ہے۔ کبھی بعض علاقوں میں فسادات کر کے مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا تو کبھی بنگلہ دیشی کہہ کر شہریت کے نئے ہتھکنڈوں میں جکڑنے کے قوانین بنائے گئے۔
حالیہ انتخابات میں فرقہ پرستی کا بیج اس قدر بویا گیا تھا کہ اسلامیات میں ڈگری یافتہ اور سیکولر رہنما ممتا بنرجی کو دبا میں آ کر مندر میں چندی پاٹھ پڑھنے سے اس بات کی یقین دہانی کرانی پڑی کہ وہ نہ صرف ہندو ہیں بلکہ اپنے مذہب پر قائم و دائم ہیں۔ اسی دبا میں آ کر مسلم نشتیں بھی کم کرنی پڑیں۔
مگر انتخابی نتائج سے ظاہر ہوا کہ مغربی بنگال میں ہندوں کی اکثریت نے فرقہ پرستی کو رد کر کے ایک بار پھر ریاست کو مزید بکھرنے سے بچایا ہے۔ بنگال کی تاریخ شمالی ہندوستان سے کافی مختلف ہے۔ اسے حقیقت میں گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
ایشیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی تصنیفات، سنگیت اور آرٹ سے جہاں اس خطے کو دنیا سے متعارف کرایا وہیں سوامی وویکانند نے ویدوں، یوگا اور منطق سے معروف مصنفوں کو وارد بنگال پر مجبور کر دیا۔
اسی بنگال میں راجہ رام موہن رائے نے ہندوں میں رائج رسم ستی کے خلاف منظم مہم چلائی جب شوہر کے انتقال پر بیوی کو اس کی چتا پر زندہ جلایا جاتا تھا۔ اسی بنگال میں ہندوں کی اکثریت قاضی نظرالاسلام کی سنگیت کی برسوں سے دیوانی رہی ہے۔
بقول ایک بنگالی صحافی سومترا بنرجی بنگال میں ایک عورت کو للکارنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس معاشرے کو ادب، تصنیفات، سنگیت اور آرٹ نے اتنا حساس، نازک، خوبصورت اور مہذب بنایا ہے اس معاشرے میں ماں درگا بھی موجود ہے جو گببر سنگھ یا اس کا روپ دھارن کرنے والوں کو نہ صرف نگھل لیتی ہے بلکہ گبر سنگھوں کے سیاسی کیریر کا کاونٹ ڈان بھی شروع کرواتی ہے کیونکہ بنگالی معاشرے میں مذہبی منافرت کی تحریکیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس