دیکھا انہیں تو موج سمندر پہ رو پڑا

پستی کی کن کن انتہائوں کو ہم نے ابھی چھونا ہے ‘ سیلاب کی تباہ کاریاں کیا کیا گل کھلا رہی ہیں ‘ نہ ہمیں ہوش آتا ہے ‘ نہ رحم کی کوئی رمق ہمیں چھو کر گزری ہے ‘ صرف واقعات کو ہی جمع کرکے تحریری شکل میں سامنے لایا جائے تو عبرتناک داستان بن جائے گی ‘ میڈیا بھی اب سوشل میڈیا کے ساتھ مل کر ان سفاکانہ اقدامات کو بے نقاب کر رہا ہے جنہیں دیکھ اور سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں صرف انتہائی سنگدل اور سفاک لوگ ہی اس صورتحال سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں ‘ سیلاباور بارش کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے بالکل اسی طرح سرگرم ہو گئے ہیں جیسا کہ کورونا کے ابتدائی ایام میں پانچ دس روپے کا ماسک پانچ سو اور دیگر ادویات اوراحتیاطی تدابیر کے لئے ہاتھوں پر کئے جانے والے سپرے بلیک میں فروخت کرکے جیبیں بھرنے والوں نے سفاکانہ رویہ اختیار کیا تھا ‘ سو اب ہوس زر میں مبتلا”تاجر” لٹے پٹے لوگوں کو سرچھپانے کے لئے خیمے چار ہزار کے بجائے دس بارہ ہزار اور 80 روپے کی پلاسٹک شیٹ 8 سو روپے میں فروخت کر کے ”ڈاکہ زنی” کی نئی جہتیں دریافت کر رہے ہیں ‘ ایک ویڈیو وائرل ہو رہی جس میں ایک چھوٹی بچی سے جب اس صورتحال کے بارے میں اس کی مصیبت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو اس کا جواب انتہائی مختصر یہ ملتا ہے کہ ”روٹی” خدا جانے وہ بچی اور اس کے خاندان والوں کو کب سے روٹی نہیں ملی ‘ دوسری جانب ایک صوبائی مشیر کی بے حسی اس کے اس بیان سے واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ بقول اس کے سیلاب اور قدرتی آفات آتے رہتے ہیں انقلابی جلسے ملتوی نہیں ہو سکتے ‘ شاید یہی سوچ ہی کارفرما تھی کہ کوہستان میں سیلاب اور شدید بارش میں پھنسے ہوئے پانچ افراد(کوئی انہیں بھائی تو کوئی دوست قرار دے رہا ہے) کئی گھنٹے اس ہیلی کاپٹر کا انتظار کرکے لقمہ اجل بن گئے جو صرف ڈیڑھ گھنٹے میں ان تک رسائی دے کر انہیں بچا سکتا تھا مگر وہ کسی ”اہم شخص” کے لئے مختص کیا گیا تھا جس کی بقول صوبائی مشیر انقلابی جلسے ملتوی نہیں ہوسکتے ‘ اور وہ سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لیکر ”عوام” کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا ‘ اس تصویر کو جس سے کوہستان کے پانچ بے بس انسانوں کی حالت زار کا احساس ہوتا ہے ٹیگ کرتے ہوئے ہمارے کرم فرما پروفیسر ڈاکٹر عمر قیاض قائل نے اپنے چند اشعار فیس بک پرلگا کر عالم انسانیت کوجھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے ۔
دکھ اس قدر ملے کہ ترے درپہ رو پڑا
مالک میں آج اپنے مقدر پہ رو پڑا
شکوہ نہیں ہے تیرے کرم کا مجھے مگر
آج اپنی چشم زار کے منظر پہ رو پڑا
جو جو غریب شہر ملا غم زدہ ملا
جو جو ملا ہے اس کے مقدر پہ رو پڑا
صدیوں کا پیاس جن کا مقدر بنی رہی
دیکھا انہیں تو موج سمندر پہ رو پڑا
اب بن کے اڑ رہی ہے یہاں خاک زندگی
قائل میں ایسے قیمتی گوہر پہ رو پڑا
لگ بھگ بارہ سال پہلے بھی سیلاب نے بڑی تباہی مچائی تھی لیکن موجودہ صورتحال کو اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھمبیر قرار دیا جارہا ہے ‘ گزشتہ روز نوشہرہ کے ضلعی حاکم نے عوام کو خبردار کرنا شروع کردیا تھا کہ وہ پشاور یا مردان کی طرف نکل جائیں ‘ جہاں بقول ان کے ریلیف کیمپ قائم کئے جا چکے ہیں سوشل میڈیا پر جس طرح سوات ‘مدین ‘ کالام وغیرہ میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں اور پختہ عمارتیں ‘ خاص طور پر بڑے ہوٹل گرتے اور سیلابی پانی کا حصہ بنتے دیکھے جارہے ہیں ان پر یہ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ جب دریا کی گزر گاہوں کو محدود کرکے کنارے کنارے ہوٹلوں کی تعمیر کے منصوبے بنائے جائیں گے توپانی کے بہائو کو روکنے کی ساری تدبیریں ناکامی سے دو چار ہوں گی ‘ اصولی اور قانون طور پر تو دریا کنارے سے کم از کم دو سو فٹ دور ہی عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے مگر سیاحوں کو دریا کے بہائو سے لطف اندوز ہونے کے لئے جس طرح ان ہوٹلوں کو تعمیرکرنے کی اجازت دی گئی ہے اس پر انکوائری لازمی ہے اور جوبھی اس غیر قانونی اقدام میں ملوث ہے اس کو نشان عبرت بنانا لازمی ہے مگر ایسا کون کرے گا؟ کہ جب منڈا ڈیم اور مہمند ڈیم کے ٹوٹنے کی کسی کو احساس نہیں ہے نہ ہی س کے ٹھیکیدار ادارے کے خلاف کوئی کارروائی ہونے کی توقع ہے جو مبینہ طور پر وزیر سابق حکومت کے ایک وزیر کی ملکیت ہے جس کی وجہ سے اس وقت چارسدہ اور نوشہرہ پانی کی زد میں ہیں اور ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں تو بھلا دریا کنارے ہوٹلوں کی تعمیر کی اجازت دینے والوں سے کیا باز پرس؟ یعنی بقول شاعر
آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہئے آپ کے عیب و ہنردیکھے گا کون
اس ساری صورتحال میں صرف ایک چیز گم ہوچکی ہے اور وہ ہے خوف خدا کا احساس ‘ ایک ویڈیو وائرل ہو چکی ہے جس میں سیلاب سے متاثرہ شخص جوکہہ رہا ہے اسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘بھوک پیاس سے نڈھال یہ شخص نوحہ کناں ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ قرآن پر ہاتھ اٹھا کر وعدہ کرو کہ ووٹ(فلاں) کودو گے تو تمہیں امدادی پیکج دیتے ہیں ‘ ایک اور ویڈیو میں سندھ کے ایک ممبر قومی اسمبلی سیلاب سے متاثر ہونے والوں میں پچاس پچاس روپے بطور امداد تقسیم کرکے روانہ ہوئے کیا خوب ہے حاتم طائی کی روح قبر کے اندر شرمندہ ہورہی ہو گی ‘ رئیس رامپوری نے کیا خوب کہا تھا
خود اپنی ذلت و خواری نہ کرنا
کسی کم ظرف سے یاری نہ کرنا
سیلاب سے تین کروڑ افراد کے بے گھر ہونے کی اطلاعات تو گزشتہ روز کے اخبارات میں چھپی تھیں اب ان میں مزید کتنا اضافہ ہوچکا ہو گا اور یہ قیامت گزرنے تک متاثرین کی تعداد ‘ املاک کے نقصان کی صورتحال کیا ہو گی اس کے لئے کوئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ہی درست اعداد و شمار فراہم کرسکتی ہے تاہم اجتماعی توبہ ان حالات سے مستقبل میں ہمیں محفوظ بنا سکتی ہے۔
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار