دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے

کھلی آنکھوں مکھی نگلنا اسے ہی تو کہتے ہیں کہ ایک شخص جوسیاسی لوٹا گیری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور اس کے گزشتہ برسوں کے لوٹیائی سیاست کو دیکھا جائے تو ہر آن بدلتی سیاست کا ساتھ دینے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ‘ گزشتہ روز پشاور میں ایک زنانہ پولنگ سٹیشن پر انتخابات سے بھی ایک رات پہلے ” انتخابی معرکہ” سر کرنے کے لئے جس طرح ٹھپے پہ ٹھپا ‘ ٹھپے پہ ٹھپا لگانے کی ویڈیو وائرل ہوئی اور الیکشن کمیشن نے اس کا سخت نوٹس لیکر متعلقہ خاتون پریذائیڈنگ آفیسر اور اس کے شوہر کو گرفتار کرکے جیل یاترا پر مجبور کیا ‘ اس واقعے کوسیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نام دے کر اس سارے واقعے کو بقول چوہدری شجاعت حسین ”مٹی پائو” کے بیانئے میں لپیٹنے کی کوشش کو کھلی آنکھوں مکھی نگلنے سے تعبیر کیاجا سکتا ہے جس پر ایک لمبی واہ واہ تو بنتی ہے ۔ مگر اس لمبی واہ کے بطن میں پوشیدہ ڈھٹائی کو کیسے کوئی نظر انداز کرے کہ یہ ویڈیو تو دنیا نے دیکھ لی ہے ‘ دراصل بعض لوگوں کا انداز تکلم ہی اس قدر معصومانہ ہوتا ہے کہ وہ بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے چہرے پرچھائی ہوئی ”معصومیت”سے لوگ آسانی سے دھوکہ کھا جائیں گے حالانکہ اہل سیاست میں ان کا مقام شاید ذکی کے ان اشعار سے ذرا مختلف نہیں ہے کہ
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جواس پار ہیں اس پار مجھے جانتے ہیں
یہ جو اس پار ہیں ‘ اس پار سمجھتے ہیں مجھے
یہ بھی فرمایاگیا ہے کہ پولنگ پرامن ہوئی ‘ کوئی سنگین واقعہ پیش نہیں آیا ‘ اس پر سبحان اللہ کہنا تو بنتا ہے ‘ اگریہ کہا جاتاکہ مجموعی طور پر پولنگ پرامن ہوئی توشاید ”اتفاق” کا پہلو نکل ہی آتا ‘ مگر یہ جوسنگین واقعات جن میں خود کش دھماکہ ‘ پولنگ اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑ ‘ یہاں تک کہ ایک وفاقی وزیر کی گاڑی پر درہ آدم خیل میں حملہ ہوا جس میں دوسرے اہلکاروں کی درگت بنائی گئی مگر شکر ہے وزیر موصوف کو گزند نہیں پہنچا ‘ اسی طرح دیگر کئی علاقوں میں جو افراتفری دیکھنے کو ملی ‘ کیا انہیں ” پرامن ” کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے ‘ ان کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے کہ خواہ مخواہ منفی واقعات کو سامنے لانے سے متعلقہ متاثرہ افراد کے لواحقین کے زخم ہرے ہونے کا امکان موجود ہے ‘ اگر کسی کو ضرورت ہے تو پیر کے روز کے اخبارات پر نگاہیں ڈالیں اس قسم کے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ شہ سرخیوں اور ذیلی سرخیوں میں نظرآجائے گی ۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ تحصیل گورگٹھڑی سکول والے واقعے میں ملوث میاں بیوی کو ا لیکشن کمیشن پنجاب کے ڈسکہ انتخابات کی طر ح حقیقی معنوں میں کیفرکردار تک پہنچاتا ہے یا پھر اس بیانئے”سیاسی پوائنٹ سکورنگ” کی آڑ میں”صاف شفاف” قرار دے کر اصل حقائق ہی کو ”شرمندگی” سے دو چارکرنے والی ”قوتوں” کو خوش کرتا ہے ‘ اور اس کے بعد لکھنو کے نواب سعاد ت علی خان کے اس طائفۂ دشنام کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے جو نواب صاحب کے مخالفین کے خلاف گالم گلوچ کے ساتھ حرکت میں آجاتا تھا اور ان مغبچوں کے بارے میں مولانا محمد حسین آزاد نے لکھ رکھا ہے کہ ”شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقط سناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے” ویسے بھی اب ہمارے ہاں سیاست میں ایسی ہی صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ سیاست سے ”شرافت” کی رخصتی زوروں پر ہے ۔ یعنی بقول میر تقی میر
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
ہمارے ہاں صوبے کی سیاست میں ایک ”روایت” آج بھی موجود ہے اور وہ ہے کئی ایک علاقوں میں خواتین ووٹروں کوگھروں سے نکال کرووٹ پول کرنے سے منع کرنے پر”اتفاق رائے” پر عمل کرانے کا ‘ گزشتہ کئی انتخابات کی طرح اب کی بار بھی بنوں سے آنے والی خبروں میں یہی اطلاع سامنے آئی ہے کہ انتخابات سے ایک روز پہلے چالیس رکنی علاقائی کمیٹی اور ویلج کونسل امیدواروں کی خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں طے پایا کہ ووٹ کے لئے گھروں سے خواتین کو نکالنے پر جرمانہ عاید کیا جائے گا ‘ اب اس صورتحال پر ماہرین آئین و قانون کی کیا رائے بنتی ہے یہ تو ہم نہیں جانتے ‘ اس لئے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے ‘ خصوصاً دیہی علاقوں میں یہ ایک عمومی رویہ رہا ہے اور بے چاری خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھنے کی یہ روایت بہت پختہ رہی ہے ‘ اس حوالے سے چارسدہ میں بھی ایک بار مخالف امیدواروں کے مابین ایسا ہی معاہدہ کیاگیا ‘ جبکہ امیدواروں میں اک تو عالمی سطح کا لیڈر بھی شامل تھا ‘ تاہم جب صورتحال پرمنفی اشارے ملنے لگے توانہی مشہور سیاسی رہنما نے معاہدہ توڑتے ہوئے خواتین کو گھروں سے نکال نکال کر پولنگ میں کردار اداکرنے پر مجبور کیا ‘ اگرچہ ان کی دیکھا دیکھی مخالف امیدوار نے بھی بہ امر مجبوری خواتین ووٹروں کوپولنگ سٹیشنوں پر پہنچا دیا تھا تاہم تب تک صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آچکی تھی یعنی جس کو شکست کا خوف لاحق ہو گیا تھا ‘ اس کی جیت یقینی ہو گئی تھی اور مخالف امیدوار کی صورتحال”ٹک ٹک دیدم ‘ دوم نہ کشیدم ” والی بن گئی تھی ‘ تاہم تب تک وقت اس کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسل کر اس کی مٹھی کو خالی کر چکا تھا ‘ یعنی بقول محسن بھوپالی
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دلنشین رکھتا تھا
اور بقول عبرت مچھلی شہری
کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا نہ ہو سکا
کبھی وعدے بھی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں؟

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد