ذمے دار بھی تم ہی ہو !

بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین اس امید کے ساتھ کھڑے ہیں کہ انہیں کسی نا کسی طرح سے پولینڈ میں داخلہ مل سکے تاکہ وہ یورپ کے دیگر ممالک تک رسائی حاصل کریں۔ پولینڈ حکومت اور دیگر یورپین ممالک کا یہ الزام ہے کہ بیلاروسی میں قائم الیگزینڈر لوکاشینکو کی حکومت دراصل روس کی کٹھ پتلی سرکار ہے جسے ولادیمیر پوٹن استعمال کرکے یورپی یونین پر ان پناہ گزینوں کے ذریعے دبائو ڈالنا چاہتی ہے۔ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ لوگ اپنے ممالک میں کیوں نہیں رہنا چاہتے اور تمہاری سرحد پر منتظر اس امید سے کھڑے ہیں کہ کسی نا کسی طرح سے یورپ میں داخل ہوکر یہ لوگ بھی وہ سہولتیں حاصل کر سکیں جو تم اپنے باشندوں کو مہیا کرتے ہو ؟آج تمہیں ان مہاجرین کا اپنی سرحد کے پاس جمع ہونا گوارا نہیں ہورہا مگر تم نے ان کے گھر میں گھس کر ان کے تیل کے ذخائر سے اپنی بھوک مٹائی ہے۔ 1992 میں پہلے یہ جواز پیش کرکے عراق پر حملے کیئے کہ کویت کو آزادی دلانی ہے اور پھر2003میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کا الزام لگاکر دوبارہ ان پر حملے کئے جو بعد میں ٹونی بلئیر نے خود تسلیم کیا کہ وہ ایک جھوٹی افواہ تھی۔ وہ تم ہی تھے جس نے پرامن اور پھلتے پھولتے لیبیا میں باغی گروپوں کی مدد کے لئے اس ملک پر نیٹو کی چڑھائی کی اور معمر قذافی کی حکومت ختم کرے لیبیا کو جنگ کی حالت میں چھوڑ دیا جہاں اب تک امن کا سورج طلوع نا ہو سکا۔ آج بھی وہ لیبیا خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا ہے جس کے شہریوں کو تم نے اپنی سرحد پر روک رکھا ہے۔ تم کیوں تپتے ہو جب شامی مہاجرین تمہاری سرحد میں داخل ہوتے ہیں ؟ تمہی تو تھے جس نے ”فرینڈز آف سیریا”کے نام سے اتحاد بناکر شام میں حکومت مخالف گروپوں کو مالی و عسکری معاونت فراہم کی تاکہ وہاں خانہ جنگی کو مزید ہوا دی جاسکے۔ فلسطین میں یہودیوں کو دنیا بھر سے بلاکر انہیں وہاں آباد کیا جبکہ فلسطین کے اپنے باشندوں کو اپنے ہی ملک میں بے سر و سامان چھوڑ دیا۔ ان پر مسلسل جنگیں مسلط کیں جس سے وہ اپنے ہی ملک کو چھوڑ کر شام، اردون اور لبنان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مگر تمہاری جنگ کی بھوک نے انہیں وہاں بھی سکون سے نا رہنے دیا اور شام کو بھی تم نے جنگ کا میدان بنادیا۔ یوں وہ بے یارو مددگار فلسطینی وہاں سے بھی ہجرت کرکے کہیں اور ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ کیا اب یہ تمہاری اخلاقی ذمے داری نہیں کہ تم ان لوگوں کو اپنے گھر میں پناہ دو ؟ اسی طرح تم نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاکھوں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ آپریشن ”اینڈیورنگ فریڈم”یعنی پائیدار آزادی کے نام سے2001میں کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں پر اتنے بڑے پیمانے پر بمباری کی کہ کابل شہر میں لاشوں کے سوا اور کچھ نا دکھائی دیا۔ جن کے خاتمے کے لئے تم نے یہ آپریشن شروع کیا وہ لوگ نا ہی اس آپریشن میں مارے گئے اور نا ہی اگلے 20سال تک انہیں تم شکست دے سکے البتہ آخر میں انہی کو حکومت سونپ کر چلے گئے جن کے خلاف تم نے سینہ تان کر یہ اعلان کیا تھا کہ ہم انہیں پتھر کے دور میں واپس لے جائیں گے۔ ستم بالائے ستم کہ وہاں سے نکلتے ہوئے تم اپنے پالتو جانوروں تک کو تو ساتھ لے جانا نا بھولے مگر جن افغانوں نے20سال تک تمہارے اس غیر قانونی اور غیر انسانی قبضے کو قائم رکھنے میں مدد فراہم کی ان کے لئے تمہارے جہازوں پر لٹکنے تک کی جگہ میسر نا تھی۔ اب جب وہی افغان زندگیوں کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال کر ان سنہرے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے تمہاری سرحدوں تک پہنچ چکے ہیں جو تم نے انہیں دکھائے تھے تو تمہیں بھی ان سے ویسے ہی تعاون کرنا چاہیے جس طرح انہوں نے تمہارے 20سالہ قبضے میں تمہارا ساتھ دیا تھا۔ مگر لگتا یوں ہے کہ تم وہ سب بھول چکے ہو۔ تم تو ویسے بھی انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دکھاوا بہت اچھے سے کرلیتے ہو اور بعض اوقات تو تیسری دنیا کے کسی غریب ملک پر اپنا فیصلہ زبردستی مسلط کرنے کے لئے اور اپنا رعب جتانے کے لئے پابندیاں بھی لگادیتے ہو۔ تو اب تمہیں چاہئے کہ افغانستان، افریقہ ، عراق، فلسطین، یمن اور ایسے کئی ممالک جو تمہاری نو آبادیاتی یا پھر جنگی جنونیت کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں ان کے شہریوں پر رحم کرکے اپنی سرحد ان کے لئے کھول دو۔ کچھ وقت کے لئے ہی سہی مگر تمہیں انسانیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ الیگزینڈر لوکاشینکو یا ولادیمیر کو تم کیوں کوستے ہوں ؟ ان مہاجرین کے آبائی ممالک میں خانہ جنگیاں اور تباہ کاریاں تم نے پیدا کی ہیں تو اب جب وہ تمہیں آئینہ دکھاکر تمہارے ہی کرتوت تمہیں دکھارہیں ہو تو تم کیوں برا مانتے ہو ؟ ان کی حالتِ زار کے اصل دمے دار تو تم ہی ہو لہذا اب اس مسئلے کا حل بھی تم نے ہی نکالنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟