ر جل عظیم داغ الفت دے گیا

شخصیت میں کھرا پن، مزاج کی دل نوازی ، مرنجاں مرنج طبیعت ، گفتار میں نرمی ، بے عیب کر دار ، زاہد مرتاض ، اکل کھرا ، نہ جھکنے والا نہ بکنے والا ،نہ لالچ وطمع سے مغلوب ،نہ زیست میںکوئی داغ حرماں البتہ چہر ہ نور پر داغ جبہہ سائی کی دمک وتمتما ہٹ ،سعیدالفطرت اور سلیم الطبع عبداللہ بھی آخر کو داغ الفت دے ہی گئے ،کہنے کو وہ ایک بیورو کریٹ تھے مگر عملا ً وہ صرف ” عبداللہ” ہی تھے اس میںکسی کو کبھی شک نہیںرہااورنہ اب بھی ہے ۔ ان کے دنیا فانی سے اٹھ جا نے کے بعدسول سروس میں اصول پسند ی اکل کھر ے کردار کا روشن باب بھی بند ہو گیا ، مرحوم چیف سیکرٹری کے عہدے کے علا وہ دیگر اہم ترین عہدوں پر فائز رہے اور اپنے بعد آنے والو ں کے لیے صراط المستقیم بناگئے ۔عبداللہ کا ہری پو ر کے ایک دینی گھر انے سے تعلق تھا ، عبداللہ کے کرادر کو دیکھ کر ان کے والد کی عظمت کا احساس ہوتا ہے کہ انھو ں نے اولا د کی تربیت ایسے خطوط پر کی کہ اللہ میا ں کے سامنے سرخ رو ہوگئے ،مرحوم عربی ،اردو ، فارسی زبانوںپر کامل عبور رکھتے تھے ،کیا زبان او ر بیان کی شستگی پائی جا تی تھی ،ایک مرتبہ مسلم اسکا لر اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے استاد محترم احمد دیدات پاکستان تشریف لائے ، یہا ں انھو ں نے مختلف تقریبات میں تقاریر کیں ، خیر سے احمد دید ات کی فکر ونظر اپنی جگہ لیکن پشاور میں احمد دیدات کی تقریب میں عبداللہ بھی مقررین میں شامل تھے پوری مجلس تو کیا احمد دیدات بھی بہت متاثر ہوئے ، اپنی تقریر میں عبداللہ صاحب نے پرمغز خطاب کیا اور نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک نیا نظریہ بھی دیا کہ تاریکی کوئی اکا ئی نہیں ہے کوئی قوت نہیں ہے ، اصل طاقت روشنی ہے جب روشنی نہ ہو تو تاریکی عود کر جا تی ہے اور روشنی ہمیشہ تاریکی ملیامیٹ کر تی ہے ، اسی خطاب میں انھو ں نے نئی نسل کو پیغام دیا کہ صرف نصف شب کا ہو تا ہے پھر اس کے بعد اجالا ہی اجا لا ہوتا ہے اس لیے انسان کو تیر گی سے خائف نہیں رہنا چاہیے ،مرحوم بے باکی میں بھی اپنی مثال آپ تھے، ان کی اصول پسند ی کی بناء پر ہر اچھا برا انسان ان عزت واحترام کر تا تھا ، بھٹو مر حوم ایک منتقم مزاج انسان تھے چنانچہ سیا ستدان ہو ں یا بیوروکر یٹ سبھی بھٹو مر حوم کی منتقم مزاجی سے بے حد خائف رہتے تھے خاص کر بیو رو کریٹ کو ئی کا م بھٹو مر حوم کی خواہش کے بر عکس کرنے کی ہمت نہیںرکھتے تھے عبداللہ مرحوم جب ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میںکمشنر تعینا ت تھے تو وہا ں ضمنی انتخابات منعقد ہو ا ، مر حوم نے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو واضح ہدایت دیں کہ کوئی دھاندلی نہیں ہو نی چاہیے انتخابات ہر صورت شفا ف ہونا چاہیے اگر تم کو کوئی خوف ہے تو اپنے بیو ی بچے میر ے گھر بھیج دو ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہے ، اس دور میںہر الیکشن میں خوب دھا ندلی مچائی جاتی تھی دیکھنے والو ں نے دیکھا کہ ڈیر ہ کے اس انتخاب میںکوئی دھا ندلی نہیں ہو سکی ،بھٹو مرحو م کے دور میں شما لی وزیر ستان میں شر پسندو ں کے خلا ف آپر یشن ہوا ، عبداللہ مر حوم وہاں پولیٹکل ایجنٹ کے عہد ے پر فائز تھے ، مرحوم نے اس آپریشن کی خود نگرانی کی اورکسی ادارے اور ایجنسی کو بے جا مداخلت نہیں کرنے دی آپریشن کا میا ب ہوا اور کسی فریق کی طرف سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ، عبداللہ مر حوم نے اپنی ملا زمت کے آخری ایام میںکے پی کے کے چیف سیکرٹری کا عہد ہ قبول کیا بعض حلقے حیر ان ہوئے کہ مشرف جیسے حکمر ان کے دور میں ایسا عہد ہ کیوں قبول کرلیا ، کیو ں کہ حکمر ان ، خاص کرآمر اپنی من ما نی حکمر انی چیف سیکر ٹریز کے کندھو ں کا سہا ر ا لے کر تے ہیں جب عبداللہ مرحوم سے ان کے چند دوستوں نے استفسار کیا تو عبداللہ مرحوم نے کہا کہ کیا ان کے سرکا ری کر دار پر کوئی داغ ہے ،انشاء اللہ اب بھی نہ ہو گا ، اور پھر دیکھا گیا کہ مرحوم نے قانون کی سربلندی قائم رکھی ، نئی نسل کے لیے سنہر ا دور عبداللہ مرحوم کا وہ تھا جب آپ نے ایک طویل عرصہ تک بیو روکریٹ کی تربیت کے لیے اکیڈمی میںگزارا، آپ کے تربیت کر دہ بیو رو کریٹ آج بھی مرحوم کی اتباع کر رہے ہیں اور ایک عمد ہ افسر قرار پا رہے ہیں ، مرحوم نے ان افسروں کی تربیت میں نظریاتی فکر ونظر کو فروغ دیا اور فرائض منصبی کے اعلیٰ گر سکھا ئے ان کے وہ افسر آج بھی مرحوم کے اقدا رکے قائل ہیں ، اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ مشر ف کے دور میں شرپسند و ں نے بڑا زور اٹھا رکھا تھا وہ صاحب ثروت افرا دکو خط لکھ کر بہت بڑی رقم کا مطالبہ کرتے مطالبہ پورا نہ ہو نے پر قتل اور گھر کو بم سے اڑانے کی واردات بھی کرتے ، چنا نچہ سابق صوبائی وزیر حاجی جا وید کے گھر کسی ایسے ہی شرپسند نے ہینڈ گرنیڈ ما را ، اللہ کا کر م رہا کہ کوئی جا نی نقصان نہیں ہوا ، عبداللہ مرحوم ریٹائر ہو چکے تھے وہ اظہا ر افسو س کے لیے حاجی جا وید کے گھر تشریف لائے اس وقت راقم بھی وہاں موجو د تھا ،سبھی حاضر افراد اس دھماکے کے بارے میں تبادلہ خیال کرہے تھے کہ اتنے میں علا قہ کے تھا نیدارتفتیش کی غرض سے پہنچے ، تھا نید ار سے موجود افراد کا تعارف کر ایا گیا ، جب سابق چیف سیکرٹری عبداللہ مر حوم سے معتارف کرایا گیا تو تھا نید ار نے کہا کہ میں تو عبداللہ صاحب کا بہت احسان مند ہوں ، سب نے استفسار بھری نظروںسے دیکھا تو انھوں بتایا کہ پولیس سروس کا جب انٹرویو تھا تو عبداللہ صاحب پبلک سروس کمیشن کے سربراہ تھے اگر آپ نہ ہو تے تو مجھے بھرتی نصیب نہ ہو تی کیوں کہ موصوف کے زما نے میں تما م فیصلے کامل اہلیت کی بنیا د پر ہو تے تھے ، میرے پا س کوئی سفارش نہ تھی لیکن عبداللہ صاحب کی موجو دگی سے یقین تھا کہ فیصلہ اہلیت کا ملہ کی بنیا د پر ہوگا ، اس مجلس میں ایک سابق افسر بھی مو جو د تھے انھوں نے لقمہ دیا کہ عبداللہ صاحب نے نہ صرف اہلیت کو بنیا د بنا یا بلکہ یہ بھی ان کا فیصلہ تھا کہ اگر کوئی اہل ترین امید وار سفارش بھی کرائے تو اسے نااہل قرار دے کر فارغ کردیا جائے ۔عبداللہ مرحوم جس محکمے کے سربراہ رہے وہا ں کرپشن کا خاتمہ ہی رہا انھو ں نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے میں بھی فرائض انجام دئیے ان کی کارکر دگی کی بناء پر سعودی حکومت کی یہ خواہش رہی کہ وہ یہا ں ہی ملا زمت کرتے رہیں یا پھر سعودی حکومت میںکوئی اعلیٰ سرکاری عہدہ قبول کرلیں مگر عبداللہ مرحوم نے اپنے ملک کی خدمت کو ترجیح دی ، کیا ایسے ان مو ل ہیر ے اب ڈھونڈے سے مل پائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''