3 61

رات آکر گزر بھی جاتی ہے

آج جمعرات 9اپریل2020ء کو پندرہ شعبان المعظم1441ہجری ہے، آج کا دن جس رات کے گزرنے کے بعد طلوع ہوا اسے شب برات کہتے ہیں، لیکن ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے اسے ‘شب رات’ کہتے تھے، ہم کم علموں کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کہ رات اور شب ہم معنی الفاظ ہیں۔ بس اتنا جانتے تھے جب ‘شب رات’ آئے تو ہم جی کھول کر پٹاخے چھوڑیں گے۔ شُرشُریاں، ہوائیاں، ریٹھے، چخ چوندر، پپل وترے، پسو، سموسے، پھلجھڑیاں، ڈزے، سیٹیاں، بم، پٹاخے، گولے، کگو، کگشتو، فانوس، راکٹ، کتنی ورائٹی تھی روپوں پیسوں کو آگ لگا کر اُچھلنے کودنے کے بہانے ڈھونڈنے کی، ہم آتش بازی کی ان رنگ برنگی اختراعات کو دیا سلائی دکھاتے چنگاریاں اُٹھتیں اور ہم یوں بدمست ہو جاتے کانوں پڑی آواز بھی سنائی نہ دے سکتی۔ ہم آپے سے باہر ہوکر یہ سب کیا کرتے تھے کیونکہ جن دنوں ہم اس قسم کی قباحتیں کرکے خوشی سے پھولے نہ سماکر تالیاں بجانے یا آوازے کسنے لگتے تھے ہمیں اتنا بھی علم نہیں تھا کہ جس رات کو ہم ‘شب رات’ کہہ کر پکارتے ہیں اسلامی ماہ وسال کے کیلنڈر میں بڑی برکتوں اور فضیلتوں والی رات ہے۔ اس رات گناہوں سے معافی یا بریت ملتی ہے اور اس ہی حوالے سے اسے شب رات کی بجائے ‘شب برات’ کہتے ہیں لیکن آم کھانے والے درختوں کی گنتی کب کرتے ہیں سو ہم نہ صرف شب برات کو شب رات کہہ دیتے بلکہ سنگ مرمر کو سنگ مرمر کا پتھر کہہ دیتے اور آب زمزم کو آب زمزم کا پانی کہہ بیٹھتے، برائے مہربانی کو ‘برائے مہربانی کرکے’ کہنے لگتے، کسی کو چٹھی پتر لکھتے وقت ‘آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتے ہیں’ قسم کے جملے لکھ دیتے فضول کو بے فضول کہہ دیتے اور ہماری اس معصوم سی کم علمی کو نہ کوئی خاطر میں لاتا، نہ اس کا برا مناتا۔ کوئی اتنا بھی نہیں کہتا تھا کہ بچہ ہے بڑا ہوگا تو سمجھ جائے گا لیکن ان دنوں ہمارے بڑے بزرگ بھی شب برات کو ‘شب رات’ ہی کہا کرتے تھے۔ شعبان کے مہینے کو شب رات کا مہینہ کہا جاتا، رمضان کو روزے یا روزیاں دا مہینہ کہا جاتا، ربیع الاول کو بارہ وفات کہا جاتا، محرم کو عاشورے کا مہینہ کہا جاتا، و علیٰ ھٰذ القیاس خدا دا مہینہ، خواج مدین، تیرہ تیزی اور اللہ جانے اور کتنے اور کیسے کیسے نام تھے جن کے حرف حرف سے پشوریت کی جھلک نظر آتی تھی۔ شب برات کو عید سعید کے متبادل خوشیوں بھری رات متصور کیا جاتا ہے۔ بقول حیدر علی آتش
ہر شب شب برات ہے ہر روز روزعید
سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے
ہر رات کو شب برات سمجھ کر مینا کی گردن میں ہاتھ ڈال کر سونے والوں کو اس سے کیا غرض کہ وہ کس بدعت کا شکار ہور ہے ہیں، یہی حال ہمارا بھی تھا، بچپن میں، اگر ہمیں شب برات کے موقع پر آتش بازی کا موقع نہ ملتا تو ہم پر دکھوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے، سو ہمارے لاڈ منانے والے ہمیں ازخود آتش بازی کا سامان لاکر دیتے اور ہمارے ساتھ وہ بھی آتش بازی کے مزے لوٹنے لگتے۔ ہم جہاں رہتے تھے وہاں گلی گلی اور گھر گھر گندھک اور مختلف کیمیکلز کے امتزاج سے آتش بازی کے اجزاء بنائے جاتے تھے اور آتش بازی کی دکانوں پر اس قدر بھیڑ ہوتی تھی جیسے وہ یہ سب خرافات مفت بانٹ رہے ہوں، چاندی ہوجاتی تھی ان کی شب برات کے آتے آتے، جی ہاں میں پشاور کی ان ہی گلیوں اور بازاروں کا ذکر کر رہا ہوں جہاں مارچ کے مہینے میں بسنت کا تہوار منانے کیلئے پتنگ بازی کی دکانیں سج جاتی ہیں، یکہ توت منڈی بیری کا علاقہ جہاں پتنگ بازی کا ساز وسامان تھوک اور پرچون کے نرخوں میں فروخت ہوتا ہے وہیں شب برات کیلئے آتش بازی کی منڈی بھی لگ جاتی تھی، لاکھوں کا کاروبار ہوتا تھا شب برات کو اور پھر جب اس بات کا احساس جاگا کہ
غم بک رہے تھے میلے میں خوشیوں کے نام پر
مایوس ہو کے لوٹے ہیں ہر اک دکاں سے ہم
تو آتش بازی کے کاروبار پر پابندی لگ گئی لیکن شب برات کو آتش بازی کی ٹھرک پوری کرنے والے بند دکانوں کے اندر چوری چھپے آتش بازی کا سامان بیچنے والوں سے یہ سودا خرید کر بقول زاہد خشک عذاب اور گناہ کماتے رہے، پابندی کے دنوں میں ہم نے جب ایک دکان پر آتش بازی کا سامان خریدنے والوں کی بھیڑ دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ دکاندار نے ‘تھانہ پورا کیا ہوا ہے’ تھانہ پورا کرنے کی اصطلاح ہم نے پہلی بار سنی تھی، سو کچھ نہ سمجھ کر بھی بہت کچھ سمجھ گئے، پشاور میں شب برات کو خواتین کے جتھوں کے جتھے اپنے رشتہ داروں کے ہاں اپنے گناہ بخشوانے کیلئے نکلتے تو پشاور کی گلیوں کی رونقیں دوبالا ہوجاتیں، اس موقع پر اپنے سجن بیلیوں کے ہاں جاکر معافی مانگنا ہمارے کلچر کا ایک مثبت پہلو ہے، لیکن جب سے سوشل میڈیا کی عمل داری شروع ہوئی گھر گھر گھومنے کی بجائے ایک آدھ ایس ایم ایس بھیج کر یا سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر ایک آدھ پوسٹ لگا کر اس مقصد کو پورا کرلیا جاتا ہے، شب برات عبادتوں اور ریاضتوں اور شب بیداری کا پیغام لیکر آتی ہے اور اس رات بندوں کے رزق اور ان کی زندگی کے ماہ وسال کا بجٹ پیش ہوتا ہے اور اس رات کے گزرنے کیساتھ ماہ رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں لیکن اس بار رمضان المبارک سے پہلے کرونا آن ٹپکا، اے کاش کہ خدا کا خوف بھی آن ٹپکے کہ
رات آکر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں