1 449

راز جو کچھ ہو اشاروں میں بتا بھی دینا

گزشتہ ہفتے چین اور ایران نے اپنے دیرینہ معاشی اور سیاسی اتحاد کو مضبوط بنانے کیلئے 25سالہ تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے۔ اس معاہد ے پر چین کی جانب سے وزیرخارجہ وانگ یی نے دستخط کے بعد ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات اب اسٹریٹجک شراکت کی سطح پر پہنچ چکے ہیں اور چین ایران کیساتھ تعلقات کو جامع طور پر بہتر بنانا چاہتا ہے، چینی وزیرخارجہ نے ایرانی ٹیلی ویژن کی تقریب کے آغاز پر کہا کہ چین کے ایران کیساتھ تعلقات موجودہ صورتحال سے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ یہ مستقل اور تزویراتی ہوں گے۔ چینی وزیرخارجہ نے یہ بھی زوردار لہجے میں کہا کہ چین وایران دوسرے ممالک کیساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں آزادانہ طور پر فیصلہ کرتا ہے اور کچھ ممالک کی طرح نہیں ہے جو ایک فون کال سے اپنی حیثیت تبدیل کرتے ہیں۔ جب ان الفاظ کی صوت پاکستان میں سنی گئی تو اہل پاکستان کا دل دھک کر رہ گیا، دل کے اس طرح دھک جانے کے بارے میں بات بعد میں کریں گے پہلے چین ایران معاہدے پر اظہار خیال کر لیا جائے، یہ معاہدہ ایران کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میںلاتا ہے، جو ایک کھرب ٹریلین ڈالر کی ایک انفراسٹرکچر اسکیم ہے جس کا مقصد مشرقی ایشیا سے یورپ تک تجارت اور روابط کا پھیلاؤ ہے۔ اس معاہدے سے صاف طور پر عیاں ہو رہا ہے کہ چین اپنے معاشی اور سیاسی اثر ورسوخ کو نمایاں طور پر پھیلانا چاہتا ہے، چین کی اس پالیسی کی وجہ سے امریکا کے اپنے اثر ورسوخ کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔ چین نے ایران پر امریکی پابندیوں کیخلاف اکثر اظہار خیال کیا ہے اور ان کا جزوی طور پر مقابلہ بھی کیا ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ نے چین کو مشکل اوقات کا دوست قرار دیا ہے، علاوہ ازیں چینی وزیرخارجہ نے معاہدے پر دستخط ہونے سے پہلے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کی اور اس معاہدے سے توقع ظاہر کی کہ توانائی اور بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں چینی سرمایہ کاری کو شامل کیا جائے گا، اس موقع پر ایرانی صدر روحانی نے عالمی طاقتوں کیساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے پر ایران کے مؤقف کیلئے بیجنگ کی حمایت کی تعریف کی، جس میں اس نے بین الاقوامی پابندیوں کو ختم کرنے کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر اتفاق کیا، ایران کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق روحانی نے یہ بھی کہا کہ جوہری معاہدے پر عمل درآمد اور یورپی ممالک کی ذمہ داریوں کی تکمیل کیلئے دونوں (چین اور ایران) ممالک کے درمیان تعاون بہت ضروری ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ 2018ء میں ترک کئے گئے۔ جوہری معاہد ے پر ایران کیساتھ مذاکرات کی بحالی کی کوشش بھی کی ہے، تہران کسی بھی طرح کے مذاکرات دوبارہ شروع ہونے سے قبل ٹرمپ کی جانب سے عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، ان مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ نے کہا کہ نئی انتظامیہ کے تحت امریکا اپنی پالیسیوں پر دوبارہ غور کرے اور جوہری معاہدے پر واپسی پر جانا چاہئے، چین ایسے اقدامات کی حمایت کرے گا، ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا کہ یہ معاہدہ (چین ایران) تجارت اور معاشی اور نقل وحمل کے تعاون کیلئے ایک روڈ میپ ہے جس پر دونوں ممالک کے نجی شعبوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی، یہ تو چین اور ایران کے درمیان تعلقات کے استحکام کی عکاسی تھی مگر چینی وزیرخارجہ کے وہ الفاظ جس سے اہل پاکستان کے دل دھک دھک کر اُٹھے اس بارے میں گفتگو ہو جائے تو بہتر ہے۔ جب سے چینی وزیرخارجہ کی تقریر کی گونج پاکستان میں اُٹھی ہے تب سے ٹائیگروں کی دوڑ لگ گئی ہے کہ وہ یہ ثابت کرنے پر جت دئیے گئے ہیں کہ چین کا ایک ٹیلی فون کال کا اشارہ پاکستان کی طرف نہیں تھا، اگر ان ٹائیگروں کی بات تسلیم کرلی جائے تو پھر خود ہی بتائیں کہ رخِ سخن کس جانب تھا، ایک ٹائیگر کا ادعا ہے کہ یہ اشارہ چینی وزیرخارجہ کا بھارت کی جانب تھا، وہ کیسے اس کی منطق وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ جب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کیخلاف معاملہ پیش ہوا تو جس کی طرف سے یقین دہانی تھی کہ وہ ایران کیخلاف ووٹ نہیں دے گا مگر بھارت کو ایک فون کال آئی اور بھارت کا راتوں رات مؤقف تبدیل ہوگیا۔ ٹائیگرز کی یہ منطق عجب ہے، ایران کیخلاف تو چین نے بھی ووٹ دیا تھا، اگر بھارت ایک ٹیلی فون کال پر دھمکایا گیا تھا تو چین نے ایسا کیوں کیا اور بھارت کے اس اقدام کے بعد تو ایران اور بھارت کے تعلقات میں فاصلے بڑھ جانے چاہئے تھے، ان ٹائیگروں کی جادوگری تو دیکھو کہ ٹیلی فون کال کا ذکر تو کر رہے ہیں اور اشارے کنائے میں امریکا کو سامنے لارہے ہیں، امریکا سے کس کو ایک ٹیلی فون کال آئی تھی یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ اپنی نااہلی کو چھپانے کی غرض سے افسانہ تراشی کر کے بے وقوف بنا جائے۔ چینی وزیرخارجہ جس نے انتہائی اہم فورم سے ٹیلی فون کال کا طعنہ دیا ہے، اس بارے میں آئیں بائیں نہ ماریں، کچھ کرلیں وقت ہمیشہ ہاتھ میں نہیں رہتا سبق دے جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار