راست اقدام

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنر ل احمد شریف نے کہا ہے کہ فوجی تنصیبات کی سکیورٹی برقرار رکھنے میں ناکامی پر لیفٹیننٹ جنرل سمیت3اعلیٰ فوجی افسران کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جو کام دشمن نہ کرسکا وہ 9 مئی کو ان چند شرپسندوں نے کر دکھایا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اب تک کی تحقیقات میں بہت سے شواہد مل چکے اور مل رہے ہیں۔ 9مئی کو شہدا پاکستان کے خاندانوں کی دل آزاری کی گئی، شہدا کے خاندان آج کڑے سوال کر رہے ہیں کہ ملوث افراد کب قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں گے۔پاک فوج کے ترجمان کے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ طویل خطاب میں تحریک انصاف کی قیادت اور ان کی پارٹی کا واجبی سا ذکر تھا لیکن اس کے باوجود نو مئی کے تناظر میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا عمران خان اور تحریک انصاف کا باب بند ہونے کا وقت قریب آگیا ہے ۔ بہرحال یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کا مخاطب اور موضوع کون تھے اور وہ کس بارے بات کر رہے تھے یقینا اس کامحور نو مئی کے واقعات تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کس سے خطاب کر رہے تھے جب انہوں نے کہا کہ فوج کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کے لیے ‘واحد سب سے بڑا خطرہ’ اس "اندرونی سیاسی عدم استحکام” سے ہے جس نے ملک کو پچھلے ایک یا اس سے زیادہ عرصے میں تباہ کر رکھا ہے۔انہوں نے 9 مئی کے واقعات کو بھی "فوج اور اس کی قیادت کے خلاف پچھلے کئی مہینوں سے عوام کو گمراہ کرنے” میں ملوث لوگوں کی طرف سے منصوبہ بند سازش قرار دیا، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ الزام کی انگلی کس کی طرف اٹھائی گئی ہے۔اس کے بارے میں اس کا عمومی اعتراف تھا کہ9مئی کے واقعات پر ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت تین فوجی افسران کو بھی نہیں بخشا گیا احتساب کا عمل گھر سے شروع کرکے سبھی کو سنجیدہ اور واضح پیغام دیاگیاڈی جی نے بڑی حد تک وضاحت کی کہ ان افراد کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے یا ‘سازش کار’ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ طریقہ کار کی خرابیوں اور ان کے زیر نگرانی مخصوص علاقوں میں حفاظتی انتظامات کی ناکافی ہونے کی وجہ سے برطرف کیا گیا تھا۔بہرحال نظر یہ آتا ہے کہ نومئی کے واقعات نہ صرف ایک ادارے بلکہ ریاست پر حملے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نتائج سنگین ہو چکے ہیں. عام شہری پہلے ہی گرفتار ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ ملوث عام لوگوں پر بھی فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا ایک ایسا معاملہ جو فی الحال زیر سماعت ہے اور جو ایک بار حل ہو گیا تو عام شہریوں کے لیے احتساب اور انصاف کے عمل کو مزید واضح کر دے گا۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے، اس ادارے نے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا بھی سخت نوٹس لیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ تفصیلی احتسابی عمل کے نتیجے میں اپنی ڈیوٹی میں ناکام رہنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات ابھی تک جاری نہیں کی گئیں اور آئی ایس پی آر نے صحافیوں کو دی جانے والی بریفنگ میں یہ نہیں بتایا کہ ملازمت سے ہٹائے گئے فوجی افسران کے نام یا اس کی برطرفی کا کیا مطلب ہے۔اس ادارہ جاتی احتسابی مہم کی سنجیدگی اس واضح پیغام سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس وقت کوئی رینک، کلاس یا طاقت مدد نہیں کرے گی، آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ، ایک ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل کی پوتی سے۔ ایک ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل کی بیوی اور ریٹائرڈ ٹو سٹار جنرل کی بیوی اور داماد سب کا احتساب ہو رہا ہے جو واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اس افراتفری والے دن ہونے والے واقعات کے بارے میں فوج کا عملی اقدام کیا اور کس حد تک سنجیدہ ہے۔ کرتی ہے۔ 9 مئی کو "پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب اور ملک کے خلاف ایک بڑی سازش” قرار دیتے ہوئے، آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے کچھ سوالات کے جوابات بھی دیے جو گزشتہ چند ہفتوں سے جاری ہیں جن کاحاصل یہ سامنے آتا ہے کہ کسی کو بھی مفت پاس نہیں دیا جا رہا ہے: چاہے اس کاتعلق جس سے بھی ہو ملوث عناصر اور ذمہ دار اب بچ نہیں سکیں گے۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی