2 491

راشن بندی کے نظام کی رام کتھا

ہر معاملے کے عموماً دوپہلو ہوتے ہیں، جنہیں عرف عام میں تصویر کے دورخ قرار دیا جاتا ہے مگر یہاں تو صورتحال تین پہلوؤں پر محیط ہورہی ہے اور وہ یوں کہ حال ہی میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت انصاف کارڈ کی طرز پر راشن کارڈ سکیم کا اجراء کرے گی جس کے تحت صوبے کے نادار اور مستحق خاندانوں کو ماہانہ کی بنیاد پر مفت راشن ان کے گھروں پر فراہم کرے گی، جسے اگر اس معاملے کا روشن پہلو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، تاہم اس کا دوسرا پہلو پنجاب میں سستی چینی کی فراہمی کیلئے مبینہ طور پر عوام کی لمبی قطاریں لگوا کر اور انگوٹھے کے نشان ثبت کراکر ایک ایک کلو سستی چینی کی تقسیم کی وہ خبریں ہیں جو سوشل میڈیا پر سامنے آرہی ہیں، جبکہ تیسرا پہلو ایک سیاسی جماعت کے رہنماء کا یہ بیان ہے کہ حکمران چینی کیلئے قطار میں کھڑی ماؤں بہنوں کو توہین سے نجات دلائے، اسی سے جڑی ایک اور خبر ایک دوسرے سیاسی رہنماء کے بیان پر مشتمل ہے کہ راشن بندی تو جنگ کے زمانے میں ہوتی ہے تو پھر سستی چینی کیلئے لوگوں کو قطاروں میں لگانے کا کیا جواز ہے وغیر وغیرہ، اس صورتحال نے ویسے ہمیں اپنے بچپن اور لڑکپن کے دنوں کی یاد ضرور دلادی ہے، یعنی ہمیں ان راشن ڈپوؤں تک پہنچا دیا ہے جہاں سے ہم بھی اپنا راشن کارڈ لئے چینی اور آٹا خرید کر گھر لاتے تھے، بعد میں اپنے بزرگوں سے معلوم ہوا کہ برصغیر میں راشن بندی انگریز حکمرانوں کے دنوں میں اس وقت کی گئی جب دنیا کو دوسری جنگ عظیم کا سامنا تھا، برصغیر میں اگرچہ خصوصاً پنجاب گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار کے حوالے سے اہم علاقہ تھا اور دیگر صوبوں میں بھی اجناس کی پیداوار کچھ نہ کچھ ضرور ہوتی تھی تاہم متحدہ ہندوستان کو اس حوالے سے مجوعی طور پر زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا اور دوسرے یہ کہ اکثر دیہی علاقوں میں گندم کی نسبت مکئی، باجرہ وغیرہ کا آٹا استعمال ہوتا تھا اور گندم شہری علاقوں کو سپلائی کیا جاتا، تو پھر دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں راشن بندی کی ضرورت کیوں پڑی تھی؟ اس حوالے سے تحقیق سے ہی صحیح صورتحال معلوم کی جاسکتی ہے جبکہ گمان غالب ہے کہ انگریز سرکار کو اپنی افواج کیلئے اس کی زیادہ ضرورت کے پیش نظر یہ اقدام اُٹھانا پڑا ہوگا اور یوں ملک بھر میں راشن بندی نظام نافذ کر کے آٹا اور چینی کنٹرول نرخوں میں مہیا کرنے کیلئے ہر محلے میں راشن ڈپو قائم کئے گئے ہوں گے، جو اگرچہ ہمارے ہاں بہت بعد میں صورتحال بہتر ہو جانے کی وجہ سے ختم کر دیا گیا جبکہ بھارت کی فلموں اور ڈراموں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں یہ نظام اب تک قائم ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس دوران ہمارے ہاں اب بھی چینی کا بحران برپا ہوتا رہتا اور ایوب خان کی حکومت کی چولیں ہلنے اور اس کے دھڑام سے گرنے کی وجہ چینی کی قیمت میں صرف چار آنے سیر اضافہ ہی تھی، جب ملک بھر میں چینی چور، چینی چور کے فلک شگاف نعرے لگاتے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ایوب خان کو اپنی حکومت سنھبالنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پھر یحییٰ خان نے ایک اور مارشل لاء لگا کر ایوبی آمریت کا تو خاتمہ کر دیا تھا تاہم اپنی آمریت قائم کر لی تھی، یہاں ضمنی طور پر ایک اہم بات کا تذکرہ ضروری ہے اور موجودہ ”راشن بندی نظام” کی سوچ کے ڈانڈے شاید اسی سابقہ راشن بندی نظام کیساتھ ملتے دکھائی دیتے ہیں (اگرچہ یہ ضروری نہیں) اور وہ یہ کہ جب برصغیر میں انگریزوں نے راشن بندی کا نظام رائج کیا تو اس وقت ہندوستان کے اکثر صوبوں میں چونکہ کانگریس کی حکومتیں تھیں اس لئے راشن ڈپوؤں کے لائیسنس کانگریسی ارکان کو جاری کئے گئے مگر جب ہندوستان تقسیم ہوا تو پاکستان میں یہ تمام ڈپو لائیسنس منسوخ کر کے مسلم لیگ کے ورکروں کو جاری کئے گئے اور تب یار لوگوں نے جعلی راشن کارڈز سینکڑوں کی تعداد میں بنوا کر چینی بلیک میں فروخت کر کے جیبیں بھرنی شروع کردی تھیں، یعنی بقول ڈاکٹر اظہاراللہ اظہار
شہر نابینا کی ہر راہگزر پر اظہار
عہد کم ظرف کی من مانیاں آباد رہیں
بعد میں بلکہ زیادہ دور کیوں جائیں، پنجاب پر لیگ(ن) اور قاف لیگ کی حکمرانی کے ادوار میں پنجاب سے دوسرے صوبوں خصوصاً خیبر پختونخوا پر گندم اور آٹے کی غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی پابندیوں کے قصے اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں جبکہ چینی مافیا کی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں اور تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ داستان اب بھی بہت باقی ہے مگر کیا کیا جائے کہ کالم کا آخر آپہنچا ہے، اس لئے اسے پھر کسی موقع کیلئے اُٹھا رکھتے ہیں تاہم اوپر کی سطور میں راشن ڈپوؤں کی تقسیم اور انتظام وانصرام کا جو ذکر آیا ہے، جبکہ بھٹو حکومت کے قیام کے بعد لیگی مالکان راشن ڈپوؤں کے سنگ سنگ پیپلزپارٹی کے ارکان کو بھی نئے لائیسنس جاری کر کے ”لوٹ کھسوٹ” میں حصہ دار بنایا گیا، تو کیا کہیں کسی جگہ ایک بار پھر اسی طرز پر کچھ اور لوگوں کو اپنا حصہ وصول کرنے کی سوچ تو نہیں پنپ رہی ہے، بقول اسماعیل میرٹھی
ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''