arif bahar 17

ردعمل کی دلدل میں پہلا قدم؟

اسلام آباد کی فضاؤں اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں ایک بار پھر گلگت بلتستان کو صوبے بنانے کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس بلایا جارہا ہے جس میں ان علاقوں کے مستقبل کے حوالے سے سرتاج عزیز رپورٹ کو جھاڑ پونجھ کر منظرعام پر لایا جانا مقصود ہے۔ اطلاع ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی نقشے کی تائید میں ریاست جموں وکشمیر کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے کی منظوری لی جائے گی۔ اس فیصلے کے بعد گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم ہوجائے گی اور یوں ان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے اپنا جواز کھو دیں گے۔ ظاہر ہے کہ ایک ملک میں دوصدر دو وزرائے اعظم اور دو سپریم کورٹ نہیں ہو سکتے۔ ایسے میں حکومتی نمائندوں کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا ہے جلد ہی گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنا کر اسے وفاقی قانون ساز اداروں میں نمائندگی دی جائے گی۔ یہ بازگشت اس وقت گونجنے لگی ہے جب گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کا مرحلہ بہت قریب ہے اور وفاق کی تین بڑی جماعتیں حکمران جماعت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن یہاں قسمت آزمائی کرنے جا رہی ہیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا یہ کوئی نیا اعلان ہے اور نہ ہی اس متنازعہ علاقے کی حیثیت کو عملی طور پر تبدیل کرنے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ گلگت بلتستان کو مرحلہ وار وفاق پاکستان کا حصہ بنانے کی کوششیں عرصہ دراز سے جاری تھیں اور گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس ایکٹ کی منظوری اس راہ کا سنگ میل تھی جس میں اس علاقے کے صوبے کے خدوخال پہلی بار بہت واضح ہو کر سامنے آئے تھے۔ ملک کے باشعور حلقوں نے اس اقدام کی مخالفت بہت ٹھوس دلائل کیساتھ کی تھی مگر حکومت نے اس سوچ کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دی تھی۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو دو الگ یونٹس کی شکل میں بحال رکھنے سے ان دو علاقوں کا مستقبل بھی دو الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دونوں علاقوں کو ایک نیم خودمختار ڈھانچے کے دو یونٹس کی شکل دی جاتی مگر ہوا اس کے اُلٹ کہ دونوں علاقوں کو ایک دریا کے دوکنارے بنا کر رکھ دیا گیا۔ اس تقسیم کے دوران یہاں ایک نیم خودمختار ڈھانچے کی حامل حکومت قائم ہوئی۔ یہاں صدر وزیراعظم سپریم کورٹ اور اسمبلی جیسے ادارے قائم ہوئے۔ اس کے برعکس گلگت بلتستان میں عوام کو ووٹ کا حق بہت دیر سے ملا جس نے وہاں کے عوام میں احساس محرومی پیدا کیا۔ اس تناظر میں جس نے بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت کی تو اسے وہاں کے عوام کے حقوق کی مخالفت سمجھا گیا حالانکہ صوبائی سٹیٹس کی مخالفت کا مقصد حقوق کی مخالفت ہرگز نہیں تھا۔ اس دوران پانچ اگست کو بھارت نے تنازعے کی حرکیات کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ بھارت یک طرفہ فیصلے کرکے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا نشان بن گیا ہے۔ کشمیری پہلے ہی اس سے برگشتہ اور متنفر تھے اب وہ مزید دور ہو گئے ہیں۔ پاکستان اپنے تمام تعلقات ختم کر بیٹھا ہے، چین بھارت کو آنکھیں ہی نہیں زور بازو بھی دکھا رہا ہے۔ ایک ایک کرکے ہمسائے اس کا دامن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بھارت کی یہ حالت بتارہی ہے کہ اس کا فیصلہ مقامی سطح پر بری طرح پٹ گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایک غیرمقبول اور غیرمعقول فیصلہ ہے ایسے غیرمقبول فیصلے کے ردعمل میں پاکستان کو کوئی عاجلانہ اور غیرمقبول فیصلہ اُٹھانے سے گریز کرنا چاہئے۔ مانا کہ پانچ اگست کے بعد طاقت اور کشمکش کا مدتوں سے جاری کھیل اب جنوبی ایشیا سے پورے ایشیا تک پھیل گیا ہے۔ پہلے اگر صرف کشمیر کو جنوبی ایشیا کا فلش پوائنٹ کہا جاتا تھا اب چین کی سرگرم تائید کے بعد یہ پورے ایشیا کا فلش پوائنٹ بن گیا ہے اور یوں کشمیر ایک گریٹ گیم کا مرکز بن گیا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی اختلافات صرف کشمیر تک محدود نہیں تھے بلکہ یہ اختلافات بھارتی حدود پر بھی ہیں مگر چین اور بھارت کی حالیہ کشیدگی کی وجہ ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت کی تبدیلی ہے۔ یہ حقیقت تنازعہ کشمیر کی اہمیت او رمرکزیت کو ظاہر کر رہی ہے چین کاخطے میں جاری کشیدگی میں شامل ہونا صرف ایک ملک کی شرکت نہیں بلکہ اس کا مطلب اور دائرہ دونوں بہت وسیع ہوں گے۔ یوں کھیل زیادہ بڑا ہوگیا ہے۔ اس بڑے کھیل کو لڑنے کیلئے زیادہ خوداعتمادی، عوامی تائید کے ذریعے زمین کو پیروں تلے رکھنے اور بین الاقوامی فورمز اور وہاں پہلے سے موجود مقدمات کی فائلوں اور تاریخی دستاویزات کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے نہ کہ عجلت اور بوکھلاہٹ کی کہ جس میں ایک غلط فیصلے کے جواب اور ردعمل میں دوسرا غلط فیصلہ کرکے خود کو حالات کی دلدل میں لاکھڑا کیا جائے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے عوام کو حقوق دینے اور مطمئن کرنے کیلئے بھارت کے غیرمقبول فیصلوںکے ردعمل پر مبنی پالیسی اپنانے کی بجائے ان علاقوں کے عوام اور لیڈرشپ کو اعتماد میں لیکر خوداعتمادی پرمبنی پالیسی بنانا چاہئے۔ کل تک تو پاکستان بھارت سے پنجہ آزمائی میں تنہا تھا اور پانچ اگست کے بعد تو چین بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ دکھا رہا ہے اور پاکستان کے حالات علامہ کے اس شعر کے غماز ہیں، گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں، یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!