5 38

رہے نام اللہ کا

دنیا کی تاریخ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مختلف ادوار میں انسانوں پر مختلف خطوں میں مختلف عذاب’ وبائیں’ مصائب اور تکالیف نازل ہوتی رہی ہیں۔ یہ عموماً انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہوتا آیا ہے۔ ہاں بعض اوقات افراد اور اقوام پر بطور امتحان وآزمائش بھی ہوا ہے’ جیسے حضرت ایوب علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے اور چونکہ انبیاء اللہ کے برگزیدہ وچنیدہ بندے ہوتے ہیں لہٰذا وہ اللہ کی مدد ونصرت کیساتھ صبر واستقامت اختیار کرتے ہوئے کندن بن کر نکل جاتے ہیں جبکہ عام طور پر جب بھی کوئی وبا وابتلا آیا ہے وہ انسان کے اپنے ہاتھ یعنی اپنے اعمال کے سبب ہوتا ہے’ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”خشکی اور سمندروں میں انسان کے ہاتھوں بگاڑ ( فساد) پیدا ہوا تاکہ لوگوں کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تو شاید وہ (اللہ) کی طرف رجوع کرنے لگیں”۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل کی اقوام کے احوال کے بارے میں قرآن کریم میں تذکرہ آیا ہے۔ خشکی وتری( بحر) میں فساد سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں ظلم و استبداد کا دور دورہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی قحط (یعنی برسوں بارشوں کا نہ ہونا) کی صورت میں انسان گروہوں اور قوموں کی صورت میں بھوک وپیاس کے سبب فنا کے گھاٹ اُترے اور کبھی قوم فرعون کی طرح جوئوں’ مینڈکوں’ خون’ بارش کی کثرت اتنی کہ گردنوں تک پانی میں ڈوبے رہتے۔ لیکن ان مصائب وتکالیف میں جب بھی انسان نے اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ تائب ہو کر خالص بندگی کیساتھ رجوع کیا اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ذات ہے۔
گزشتہ ایک ماہ سے دنیا میں کورونا وائرس نے ایک قیامت صغریٰ سی برپا کی ہے۔ اس کے متعلق بھی جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ کوئی اسے امریکہ واسرائیل کی بایولاجیکل وار سے تعبیر کرتے ہوئے اسے چین کیخلاف معاشی جنگ قرار دیتا ہے’ کوئی اسے خود چین ہی کی اپنے ہاتھوں تباہی قرار دیتا ہے کہ چینی دنیا کی ہر چیز کو بالخصوص حرام جانور وحشرات ودرندے وغیرہ کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں کے بعض مذہب پرست اس کو اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی قرار دے چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہے کہ اس کا سبب کیا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ البتہ جو بات عبرت حاصل کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں جب انسان نے کسی بھی طرح کائنات کے توازن کو غیرمتوازن کرنے کی کوشش کی ہے تو قانون فطرت مختلف طریقوں سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے اور دنیا پھر سے اپنے محور و مدار پر آجاتی ہے۔
اس وقت پہلی بات تو یہ ہے کہ سائنس کے ہاتھوں دنیا بہت آگے جا چکی ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ انسان کو اس سے گوناگوں فوائد ومنافع حاصل ہوئے ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ناقابل تردید ہے کہ سائنسی اصولوں’ فارمولوں اورایجادات نے مذہب کو جس انداز میں چیلنج کیا ہے اس کے سبب کسی دانا کا یہ کہنا کتنا صائب ہے کہ سائنس مذہب کے بغیر اندھی ہوتی ہے۔ اس اندھی سائنس نے دنیا کو اندھیرے اور تیرگی کی ایسی راہوں پر ڈال دیا ہے کہ بقول شاعر
اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پر تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور
یہ کورونا وائرس بھی تو اسی سائنس کی پیداوار ہے جس کی آنکھیں نہیں ہے جو اپنے بنانے والے اور غیر میں فرق کرنے کے قابل نہیں۔ یہی سائنس ہے جس نے دنیا جہاں کی مصنوعات کے ذریعے انسان کو ایسا محسور کر رکھا ہے کہ وہ اپنا مقصد تخلیق اور مقام ومنزل بھول گیا ہے۔ ہر طاقتور فرد’ قوم اور ملک دوسرے کمزور کو دباتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وسائل کو اپنے قبضے میں کرکے زیادہ سے زیادہ پرتعیش ماحول وزندگی کیلئے اپنے قریبی عزیزوں’ رشتہ داروں کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ نفسا نفسی اور ذاتیات کو تاریخ کی آنکھ نے شاید ہی اس سے پہلے کہیں اس صورت میں دیکھا ہو۔ اب جبکہ دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں یہ وبا پھیل رہی ہے’ انسانوں کو اپنی جانوں کی پڑ گئی ہے۔ بڑے بڑے امیر ملکوں کے کارخانے’ ائیرپورٹ اور مارکیٹس وسڑکیں ویران ہونے لگی ہیں۔ اللہ تیری شان! معلوم تاریخ میں پہلی دفعہ شاید حرمین الشریفین عشاق سے خالی خالی نظر آرہے ہیں۔ امام کعبہ اور امام مسجد نبویۖ کے پیچھے گنتی کے چند افراد ہوتے ہیں۔ عرب ممالک میں اذان کے آخر میں صلوا ةفی بیوتکم (گھروں میں نماز پڑھیں) کی صدا بلند ہوتی ہے تو ہیبت طاری ہوجاتی ہے کہ کہیں قیامت قریب تو نہیں آچکی’ حالانکہ قیامت تو ہر وقت قریب ہی ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد تو قیامت ہی نے آنا ہے۔ وطن عزیز میں کل ملکی سلامتی کونسل میں جو فیصلے ہوئے ہیں اس سے تعلیمی اداروں اور بازاروں کی چہل پہل ماند پڑنے والی ہے اور ان چیزوں اور اقدامات کو دیکھ کر اللہ کی شان بے اختیار سامنے آتی ہے۔ اگرچہ دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے بعض خبریں بہت خوفناک اور وحشت ناک بھی ہیں لیکن مسلمان کی حیثیت سے ہم سب کو استغفار اور اذکار وعبادات کی طرف رجوع کرتے ہوئے صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ سے مدد ونصرت اور رحمت وبخشش کیلئے ملتمس ہونا چاہئے۔ ائمہ مساجد وعلماء کو چاہئے کہ اجتماعی توبہ واستغفار کے اقدامات وانتظامات کریں۔ ہمیں تقدیر پر مضبوط ایمان کیساتھ احتیاطی تدابیر کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ جن لوگوں کو اس بیماری کا خدشہ لاحق ہو وہ احتیاط کے پیش نظر دوسرے لوگوں اور افراد خانہ کیساتھ ملنے جلنے کی بجائے قرنطینہ اختیار کرے۔ عوام کو چاہئے کہ نفسانفسی سے بچتے ہوئے ایثار اور باہمی تعاون واخوت کی فضا پیدا کریں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی