ری سائیکلنگ سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

تمام دنیا میں ری سائیکلنگ کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ لوگ مختلف طریقوں سے پرانی اشیاء کو قابل استعمال بنا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی پرانی بوتلوں کو گھریلو طور پر کاٹ کر ان پر رنگ کر کے انہیں ڈیکوریشن یا ان کو پھول اگانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے کاغذ کا گتہ بنایا جاتا ہے اور پلاسٹک بیگز دوبارہ سے پلاسٹک بیک بنانے یا پلاسٹک کا مختلف سامان بنانے کے کام آجاتے ہیں۔ بھارت میں گھریلو صنعت کے طور پر چپس یا بسکٹ کے ریپرز سے خام مال بنا کر شیٹس بنی جاتی ہیں، جو کپڑے کی مانند ہوتی ہیں اور جن سے تھیلے بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح ہر استعمال شدہ چیز کا کوئی نہ کوئی حل مل جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی کوڑا کرکٹ سے کارآمد چیزیں چننے کا رجحان ہے۔ یہ کام عام طور پر خانہ بدوش کرتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ کنٹینر میں ڈال کر تلف کر دیا جاتا تھا یا اس کو گہری جگہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ مگر گزرتے برسوں میں سوشل میڈیا خاص طور پر یو ٹیوب نے جہاں آگہی بانٹی ہے وہیں اس نے ری سائیکلنگ کے آئیڈیاز کو عام کر دیا ہے۔ خانہ بدوش کچرے سے لوہا، پلاسٹک، کاغذ وغیرہ چن کر لاتے ہیں۔ جن کو کباڑی خرید کر ان کے تھیلے بھر کر مختلف فیکٹریوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اسی لیے کچرا فروشی ایک منافع بخش کاروبار بنتا جا رہا ہے۔
حال ہی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پلاسٹک ری سائیکلنگ انڈسٹری کو صنعت کی حیثیت دے کر اس کی سر پرستی کی جائے۔ کیونکہ بہت سے دوست ممالک اس سے اربوں کما رہے ہیں۔ ویسے بھی یہ انڈسٹری تقریباً 10 لاکھ افراد کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ پاکستان میں 200 سے زائد ری سائیکلنگ فیکٹریز ہیں، جو کاغذ، پلاسٹک وغیرہ ری سائیکل کرتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال2020 ء کے دوران پاکستان میں250 ملین ٹن کچرا پیدا ہوا اور تقریباً پانچ ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا طریقہ کار سے آگاہی نہ ہونے کے باعث یا ری سائیکلنگ کے مناسب انفراسڑکچر کی کمی کے باعث ضائع ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں نیسلے پاکستان نے ایک پرائمری سکول کو ری سائیکل کی گئی پلاسٹک کی بوتلوں سے بنا فرنیچر عطیہ کیا۔ نیسلے کی اس سر گرمی نے ایک بار پھر سے پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کی اہمیت کے حق میں گواہی دی۔ وہیں اس نے یہ بتایا کہ کچھ بھی بے کار نہیں ہے۔ اسی طرح ٹیٹرا پیک ڈبوں کو جمع کرنے کے بعد ری سائیکل کرنا بھی بہت سے صنعتوں کو خام مال مہیا کرتا ہے۔ ٹیٹرا پیک میں استعمال ہونے وال کاغذ گتے کی صنعت کو مہیا کیا جاتا ہے جبکہ المونیم اور پولیتھین کو چھت پر استعمال ہونے والی ٹائلوں یا سلوں کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن کی مدد سے آپ کمرے کے درجہ حرارت میں10 ڈگری تک کمی لا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پولیتھین کو لان کے فرنیچر بنانے والی صنعتوں کو بھی مہیا کیا جاتا ہے۔
اگر ہم پاکستان میں اس انڈسٹری کو درپیش مسائل کا ذکر کریں تو سر فہرست کولیکشن کے طریقہ کار کی آگاہی نہ ہونا ہے۔ بہت سا کچرا ٹھیک سے تلف نہیں کیا جاتا ہے۔ یہاں شیشے، کاغذ اور پلاسٹک کو الگ الگ رکھنے کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس طرح ری سائیکلنگ کے قابل فضلے کے معیار کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی کولیکشن کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے ری سائیکل کے لیے امپورٹ کیے گئے فضلے میں اکثر ممالک مضر صحت اور تابکاری سے بھر پور فضلہ بی بھیج دیتے ہیں۔ جس کا سوائے بھیجنے والی کمپنی کو شکائیت کرنے کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ جو کچرا ری سائیکلنگ کے لیے امپورٹ کیا جاتا ہے اس میں بھی زیادہ خطرناک کچرے کو کم خطرناک کچرے سے الگ کرنے کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے۔ پاکستان خود ہر سال 30 لاکھ ٹن کچرا پیدا کرتا ہے۔ پہلے اس کو سنبھالنے کا انتطام کرنا چاہیے اس کے بعد امپورٹ کا سوچا جائے۔
پاکستان ان 15ممالک میں شامل ہے، جہاں الیکٹرانک یعنی ای ویسٹ کو تلف کرنے اور ری سائیکلنگ کو ایک اہم خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ای ویسٹ کو غیر منظم طریقے سے ہینڈل کرنا انسانی صحت، جنگلی حیات کو متاثر کر سکتا ہے اور اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ چونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور قانون ساز نئے قوانین بنانے کے لیے کافی کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ ایک مؤثر قانون اور قانونی ڈھانچہ بنایا جا سکے۔ نئے قانون کی غیر موجودگی میں قومی ماحولیات پالیسی2005 ء پاکستان کے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک فریم ورک پیش کرتی ہے، خاص طور پر فضلہ کے غیر موثر انتظام جو کہ ماحول پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ یہ نقصان دہ اخراج کو محدود کرنے، ری سائیکلنگ اور کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کے اقدامات کا استعمال کرنے کی تجویز کرتا ہے۔ یہ ردی کی ٹوکری کے انتظام میں شامل کاروباروں کیلئے لائسنسنگ سسٹم کے قیام کو فروغ دیتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی