ریلیف مگر بقدر اشک بلبل

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ دور حکومت کی جانب سے دی گئی کم آمدنی والے طبقے کے لئے پانچ ضروری اشیا گندم، چینی، گھی کھانے کا تیل، دالیں اور چاول پر آئندہ مالی سال میں سبسڈی جاری رکھنے کا فیصلہ احسن امر ہے لیکن مہنگائی کی صورتحال کے تناظر میں یہ رعایت اونٹ کے منہ میں زیرہ کے بقدر ہو گی اسے اشک بلبل سے تشبیہ دی جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔جو رعایت گزشتہ حکومت نے دی تھی اس وقت مہنگائی کی صورتحال موجودہ وقت سے کافی کم تھی ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت گزشتہ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی کو جاری رکھنے پر اکتفا نہ کرتی بلکہ مزید سبسڈی دینے کی ضرورت تھی اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں25فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق بھی گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح سی پی آئی انڈیکس کے مطابق13عشاریہ سات فیصد رہی جو دو سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سے قبل جنوری2020میں 14فیصد سے زائد مہنگائی سامنے آئی تھی۔عام تاثر ہے کہ سی پی آئی میں25فیصد اضافے کا مطلب ہے انڈے، دال، چاول، چینی، پٹرول ہر چیز کی قیمت25فیصد بڑھ گئی ہے۔عوام اپنے فیملی بجٹ کا اوسطاً 34.58فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتی ہے۔فیملی بجٹ میں سے26.68فیصد مکان کے کرائے’ بجلی’ گیس’ پانی کے بلوں اور ایندھن پر8.6فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جبکہ6.9فیصد ہوٹلنگ’ تقریباً چھ فیصد ٹرانسپورٹ’ چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر’ 3.8فیصد تعلیم اور2.7فیصد صحت پر خرچ کیا جاتاہے۔ان اعداد و شمار کی روشنی میں عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کا جائزہ لینے سے یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ صرف کھانے پینے کی اشیاء پر تھوڑی سی رعایت ملنے سے ان کے مسائل میں قابل ذکر کمی نہیں آسکتی بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرے جس کے نتیجے میں مہنگائی میں مجموعی طور پر کمی آئے۔
ممنوعہ ادویات کی فروخت ‘سخت کارروائی ہونی چاہئے
پشاو ر کی ضلعی ا نتظامیہ کی جانب سے فارمیسی اور ڈرگ سٹورز کو ڈاکٹری نسخہ کے بغیر ادویات فروخت نہ کرنے کی ہدایت اور خفتہ ڈرگ انسپکٹروں کا مختلف علاقوں میں معائنے کا عمل درآید درست آید کے مصداق احسن عمل ہے امر واقع یہ ہے کہ میڈیسن سٹورسے کوئی بھی دوا خواہ اس کا شمار ممنوع ادویات میں ہی کیوں نہ ہوتا ہو باآسانی خریدی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے اپنا علاج آپ جیسا خطرناک اور مضر صورتحال میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے قطع نظر ان ادویات جن کا استعمال نشے کے لئے ہوتا ہے وہ بھی بغیر ڈاکٹری نسخے کے فروخت ہو رہی ہوتی ہیں جس کی روک تھام اسٹوروں میں بینرز آویزاں کرکے ممکن نہیں البتہ شعور اجاگر کرنے کی حد تک یہ موزوں صورت ہو گی اس مسئلے کا جہاں ایک پہلو قانون کی خلاف ورزی ہے وہاں دوسری جانب ممنوعہ ادویات کے بے تحاشا استعمال کے باعث مارکیٹ میں طلب کے مقابلے میں رسد میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس کے باعث نہ صرف یہ ادویات ناپید ہو جاتی ہیں بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی خود ساختہ اضافہ کر دیا جاتا ہے ان قبائح کے علاوہ سب سے مشکل بات یہ ہے کہ یہ ان مریضوں کے لئے دستیاب نہیں ہوتیں جن کو علاج کے لئے ان ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔یوں ادویات میں ناغے کا ان کے علاج پر نہایت برا اثر پڑتا ہے ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر ادویات کی کھلے عام فروخت کی جس قدر حوصلہ شکنی ہواور اس ضمن میں جس قدر سختی کا مظاہرہ کیا جائے اتنا بہتر ہو گا۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں
ہمارے رپورٹر کے مطابق نانبائیوں کی جانب سے روٹی کی خود ساختہ قیمت اور وزن مقرر کرنے پر پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے آنکھیں موندلی ہیں اور شہری مجبوراً بیس روپے کی روٹی خرید رہے ہیں۔روٹی کے وزن میں کمی اور قیمت میں نانبائیوں کی جانب سے ازخود اضافہ حکومتی عملداری اور ضلعی انتظامیہ کی ناکامی ہی پر سوالات اٹھانے کا باعث نہیں بات اگر اس حد تک ہوتی تو اس سے صرف نظر کی گنجائش ممکن تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روٹی صوبے کے عوام کی خوراک کا بنیادی جز ہے جس کی قیمت میں اضافہ دن میں تین مرتبہ عوام کی جیب پر بھاری پڑتا ہے ۔سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ ایک جانب انتظامیہ اپنی موجودگی اور حکومتی عملداری کا احساس دلانے کی ناکام کوشش کے طور پر نانبائیوں سے معاہدہ کرتی ہے اور ہڑتال کا خاتمہ کرواتی ہے جبکہ دوسری جانب ہڑتال ختم کرتے ہی نانبائی اپنی مرضی کی قیمت اور وزن مقرر کرتے ہیں جن سے تعرض نہیں کیا جاتا۔اس ناکامی کو کیا نام دیا جائے بہتر ہو گا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور کمشنر پشاور اس ناکامی کا نوٹس لیں اور عوامی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کریں۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام