saddiq mayar

ریٹائر منٹ کی عمر بڑھانے کا فائدہ؟

حکومت خیبر پختونخوا نے کچھ عرصہ پہلے سوچے سمجھے بغیر اور مرکز یا دوسرے صوبوں کی رائے لئے بغیر ریٹائر منٹ کی عمر60سے 63سال کردی۔جواز انتہائی بے وزن ہے کہ مالی مشکلات کی بنا پر فی الحال پنشن کی رقم بچا رہے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے یہ قانون دور پھینک دیا اور کہا کہ آپ کی نااہلی کی وجہ سے تو ہر سال صوبے کے پاس پڑی بھاری رقوم بھی خرچ نہ ہونے کی وجہ سے واپس مرکزی خزانے میں چلی جاتی ہیں اور معمولی عارضی فائدے کیلئے ایک بنے بنائے مستحکم قانون کیساتھ چھیڑخانی کی کیا ضرورت ہے۔ یارلوگ شرمندہ ہوکر کچھ عرصہ تو خاموش رہے لیکن پھر ہمت کرکے سپریم کورٹ میں اپیل کردی، جہاں ابھی سماعت ہونی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق عالمی بنک نے بھی پنشن کی رقم بچانے کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالمی بنک نے یہ تجویز کسی اور ترقی پذیر ملک پر تھوپنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ پھر یہ بھی مدنظر رہے کہ عالمی بنک اور آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی ادارے کچھ سپرطاقتوں کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ایشیا اور افریقہ کے کئی ملکوں میں ان کے دئیے ہوئے قرضوں کا ایک بڑا حصہ ان کے نام نہاد ماہرین کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے اور ان ماہرین کے مشورے زمینی حقائق سے مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر متعلقہ ملک کی معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ایک بڑی زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر مغرب اور لاطینی امریکہ کے کچھ ملکوں میں اس مجبوری کی بنا پر بڑھائی گئی کہ وہاں ادارے چلانے کیلئے نئے نوجوان دستیاب ہی نہیں ہیں۔ ان ملکوں کی آبادی بڑھنے کی بجائے اُلٹا کم ہو رہی ہے کیونکہ اکثر مائیں حکومت کی طرف سے کئی مراعات کی پیشکشوں کے باوجود نئے بچے پیدا کرنے اور سالہا سال تک ان کی پرورش میں اپنی جوانی کے ماہ وسال لگانے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔ نتیجتاً وہاں بوڑھے ہی رہ گئے ہیں اور وہاں کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ ان کے معاشرے میں موجودہ کورونا وبا سے مرنے والوں کی تعداد اس لئے بھی زیادہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف بوڑھے ہی بوڑھے ہیں اور نوجوانوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ جاپان کا بھی یہی حال ہے اور اسی لئے ان ممالک کو ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کیساتھ ساتھ ورک فورس باہر سے منگوانا پڑ رہی ہے۔ اسکے برعکس ہمارے گلی کوچوں میں لاکھوں بیروزگار نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے گھوم رہے ہیں۔ ان میں اکثر ای گورنمنٹ اور ای فائلنگ میں مہارت رکھتے ہیں اور نیٹ نے انہیں دنیا کے کونے کونے کے علم سے نوازا ہے اسلئے یہ نیا خون پرانے بابوؤں کی نسبت کسی بھی ادارے کو چلانے اور اسے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ لانے کیلئے زیادہ موزوں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پختونخوا کے چند بابوؤں نے ریٹائرمنٹ سے بچنے کیلئے کچھ سیاسی نابالغوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانا چاہئے کیونکہ لوگوں کی عمریں بڑھ گئی ہیں اور ناسمجھ سیاسی لیڈرشپ ان کے جھانسے میں آگئی۔ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ کچھ بابے 1985کے بعد آنے والی دو سیاسی حکومتوں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے اور اب ان کی ریٹائر منٹ کی عمر پہنچ گئی ہے۔ان بابوؤں نے اپنے سابق آقاؤں کے اشاروں پر پی ٹی آئی حکومت کیساتھ پہلے دن سے ہی عدم تعاون کا رویہ اپنا رکھا ہے اور اسی لئے پی ٹی آئی حکومت دوسرے عوامل کے علاوہ ان بابوؤں کی وجہ سے بھی اپنے منشور اور ایجنڈے پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ حالت یہاں تک آگئی ہے کہ چند دن پہلے وفاقی کابینہ نے سولہ محکموں کو باقاعدہ ریڈلیٹر جاری کئے کہ کابینہ کے کئی فیصلوں پر بیوروکریسی عملدرآمد کرانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ ایک بڑے سیاسی لیڈر نے باقاعدہ الزام لگایا کہ پنجاب میں بیورو کریسی وزیر اعلیٰ بزدار کے احکامات کو پس پشت ڈال رہی ہے۔ آٹا، چینی اور پیٹرول کی عدم دستیابی کا حالیہ بحران کرپٹ، نالائق اور سیاست زدہ بیورو کریسی کے ہی شاہکار ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے ایک قابل، محنتی، دیانتدار اور مکمل غیرسیاسی بیوروکریسی پہلی شرط ہے۔ جو بدقسمتی سے پاکستان میں موجود نہیں اور بیوروکریسی کی اس تباہی میں دوسرے عوامل کیساتھ ساتھ گزشتہ حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے کہ اپنی ٹیم میں سے گندے انڈوں کو باہر پھینکنے کیساتھ ساتھ اس سیاست زدہ، کرپٹ اور نااہل بیورو کریسی کو بھی اداروں سے نکال باہر پھینکے۔ جیسا کہ ایوب خان، یحییٰ خان اور بھٹو اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ بھٹو مالی لین دین میں بالکل صاف تھا اسلئے اس نے فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں اور دوسرے محکموں میں انتہائی ایماندار سربراہ لگائے تھے جو پوری ایمانداری کیساتھ چھان پھٹک کر اُمیدوار بھرتی کرتے اور اسی وجہ سے حکومتی معاملات بہترین طریقے سے چل رہے تھے لیکن بعد میں واپڈا، پی آئی اے، ریلوے اور کراچی سٹیل مل میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں اور کراچی کی ایک لسانی پارٹی کی طرف سے بھرتی شدہ اہلکاروں نے تباہی مچائی۔کراچی سٹیل مل کی تباہی سب کے سامنے ہے۔ اب سارے ادارے دیوالیہ کرانے کے بعد تیس پینتیس سال بعد ان صاحبان کی ریٹائر منٹ کا وقت آیا ہے تو ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی مہم چلا کر پاکستان کو مزید کئی سال تک نچوڑنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ ریٹائرڈ بابے اگر چاہیں تو نئی نسل کی اخلاقی تربیت قومی فلاح وبہبود اور معاشرے کی اصلاح کے بے شمار مزید کام کرکے ملک کی قسمت اور اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں۔ نئی نوجوان نسل کو ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملنا چاہئے۔ یہی مشورہ بوڑھے سیاستدانوں کیلئے بھی ہے۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات