زرعی اراضی کی تباہی کب تک؟

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان نے کہا ہے کہ ہم کسی صورت زرعی زمینوں کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ پہلے ہی اس صوبے میں اس کی کمی ہے۔ صوابی کے دو رہائشیوں نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر صوابی نے سمال انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بورڈ کی ریکوزیشن پر صوابی یونیورسٹی سے بالمقابل ایک ہزار کنال سے زائد زرعی اراضی کو بنجر زمین قرار دے کر انڈسٹریل زون کے لئے سیکشن فور لگایا ہے حالانکہ یہ زرعی زمین ہے صوبائی حکومت نے خود ہی 2020 میں ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے تحت زرعی زمینوں کو کسی بھی مقصد کے لئے ماسوائے زراعت کے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔خیبر پختونخوا میں زرعی زمینوں کو زراعت کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال کی ممانعت کے قوانین کی سراسر خلاف ورزیاں کوئی پوشید ہ امر نہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ عوام قوانین کی خلاف ورزی پرعدالت سے رجوع کر رہے ہیں اور ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیںجن کی ذمہ داری قوانین پر عملدرآمد کروانا ہے اگرانتظامیہ ہی اس طرح کے خلاف ورزی کی مرتکب ہوجائے کہ بجائے اس کے کہ انتظامیہ قوانین کی خلاف ورزی پرایکشن لے الٹا خود ہی خلاف ورزی کا مرتکب ہو جائے تو عوام کہاں تک ان کا راستہ روک پائیں گے ۔ قوانین موجود ہیں اور اس پر عملدرآمدکراناحکومت کی ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں بہتر ہو گاکہ قیمتی زرعی زمین اور باغات کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور ماحولیاتی مسائل سے لے کے خوراک کی قلت کا سبب بننے والے اقدامات سے کم از کم حکومتی سطح پرتو گریز کیا جائے اور لینڈ مافیا کو بھی لگام دی جائے ۔
متاثرہ خاندانوں کی فوری مدد کی ضرورت
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ کی یہ یقین دہانی قابل اطمینان امر ہے کہ حکومت شہداء کے ورثاء کو تنہا نہیں چھوڑے گی قبل ازیں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ زخمیوں کے صحت کارڈ پرعلاج کی رقم کی حد پوری ہو چکی ہے اور ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ان کو مزید انتظامات کی ہدایت کی گئی تھی جو پہلے سے غم و اندوہ اور پریشانی کا شکار خاندانوں کے لئے مزید مشکلات کا باعث امر بن گیا تھا۔معاون خصوصی نے حکومت کی جانب سے جو یقین دہانی کرائی ہے اس کا عملی تقاضا یہ ہے کہ ہسپتالوں میں داخل اور گھروں میں موجود زخمیوں اور بیماروں کا سرکاری خرچ پر نہ صرف علاج معالجہ یقینی بنایا جائے بلکہ ان کو اس صدمے سے نکالنے کے لئے درکار مزید علاج کا بھی بندوبست ہونا چاہئے سانحہ میں متاثر ہونے والے خاندانوں کی مالی اعانت میں بھی تاخیر کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے ۔
بی آر ٹی سٹاپوں پر معمر افراد کی مشکلات
بی آر ٹی میں سفر کرنے والے مسافروں کی جانب سے مقررہ بس اسٹاپوں سے متصل سڑکوں کے کناروں پر گڑھے بن جانے کے باعث مقررہ جگہوں پرمسافروں کو اتارنے کی بجائے سڑک کے عین وسط پربسیں کھڑی کرکے مسافروں کو اتارنے کی شکایت کا ازالہ کرنے کے لئے متعلقہ حکام کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔بس اسٹاپس کی تعمیر جس منصوبے اور سہولت کے واسطے احسن انداز میںہوئی ہے وہاں صرف دو تین فٹ سڑک کی شکستگی کے باعث اس سہولت سے کماحقہ استفادہ نہیں ہو رہا ہے جس کے باعث خواتین بچوں اور خاص طور پر معمر افراد کو مشکلات کا سامنا ہونا فطری امر ہے اس مسئلے پرتوجہ دی جائے تواس کا حل زیادہ مشکل نہیں اور نہ ہی اس کے لئے بھاری وسائل کی ضرورت ہو گی۔تھوڑی سی مرمت سے مسئلہ حل اور معمرافراد کی شکایات کاازالہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں