زمین روئی ہمارے حال پہ اور آسماں رویا

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملک بھرمیں نوے لاکھ خاندانوں کو نو ہرار روپے کا سہ ماہی وظیفہ دیا جاتا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے شروع کردہ اس پروگرام کو نہ صرف بعد کی حکومتوں نے جاری رکھابلکہ اس مد میں ملنے والے وظیفے میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی کیا نادار خواتین کی مدد کے اس پروگرام کے تحت اب تک تقسیم کی گئی رقم کا حساب کوئی ماہر حساب دان ہی کر سکتا ہے جبکہ سہ ماہی بنیادوں پر نوے ہزار خاندانوں کو فی خاندان نو ہزار روپے کی ادائیگی کی رقم بھی کوئی معمولی رقم نہیں بعض معترضین اس رقم کوکنوئیں میں پھینکنے کے مترادف قرار دیتے ہیں اور وہ اسے اچھے ناموں سے یاد نہیں کرتے بہرحال یہ ایک ایسا فلاحی کام ہے جس کی شفاف تقسیم اور بدعنوانیوں سے گریز کی شرط پر تحسین کی کافی گنجائش ہے لیکن اس کی شفافیت کا سوال خود پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت کے دور میں اٹھا جس کے بعد بی آئی ایس پی کی اس وقت کی خاتون سربراہ ملک سے باہر چلی گئیں اور معاملے کی تحقیقات پھر کبھی نہ ہو سکیں یوں بدعنوانی کے دیگر ابواب کی طرح اس باب کو بھی بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا گیا موجودہ حکومت میں بھی اس پروگرام کی سربراہی پیپلز پارٹی ہی کی ایک خاتون عہدیدار کے پاس ہے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کی وفاقی وزیر شازیہ مری نے پروگرام کو شفافیت کے تقاضوں کے مطابق چلانے کے لئے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دی ہیں اس کے باوجودیہ مسئلہ شروع سے اب تک تقسیم کے مراکز ہڑبونگ اور بدانتظامی پر ذرا بھی قابو نہیں پایا جا سکا یہ یکطرفہ انتظامی ناکامی نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری امداد حاصل کرنے والی خواتین پر بھی پوری طرح عائد ہوتی ہے لیکن بہرحال ان سے کسی نظم وضبط کی پابندی اور مثالی طرز عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ حال ہی میں چارسدہ میں ایک مرد پولیس اہلکار کی امداد وصول کرنے والی باپردہ برقع
پوش خواتین پر وحشیانہ طور پر لاٹھی چارج کی ویڈیو وائرل ہوئی اصولی طور پر پرہجوم اور غیر منظم خواتین کو قطار میں کھڑی کرنے کی ذمہ داری کے لئے خواتین پولیس اہلکاروں کی تعیناتی ہونی چاہئے تھی ایک ایسے روایتی معاشرہ میں اس طرح کی حرکت کا مطلب پورے علاقے کی روایات اور اقدار کو روندنے کے سوا کچھ نہیں ملکی قوانین کے تحت بھی اس کی گنجائش ہر گز نہیں تھی صرف یہی نہیں ملک بھر میں اس طرح کے واقعات نئی بات نہیں کراچی میں جہاں پروگرام کی بانی حکمران جماعت کی حکومت ہے وہاں کراچی میں مچھر کالونی مشرف کالونی کھارادر اورمیٹھادرکی دو ہزار سے زائد خواتین کراچی پورٹ ٹرسٹ گرائونڈ میں حصول امداد کے لئے پہنچیں تو بھگڈر مچ گئی جس کی وجہ سے ایک خاتون جاں بحق اور بیس خواتین زخمی ہوکر ہسپتال پہنچیں اس شدید گرمی اور حبس کے دنوں میں ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے واقعات کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ بدانتظامی تو اس پروگرام کے منتظمین کا وتیرہ رہا ہے جس میںسالوںبعد بھی بہتری نہیں لائی جا سکی بد انتظامی و بدنظمی کے واقعات کی ذمہ داری سے من حیث المجموع ہمارا معاشرہ بری الذمہ نہیں بلکہ یہ ہماری سرشت کا حصہ بن چکی ہے اور اس کا تجربہ ہمیں بار بار ہوتا ہے رمضان المبارک میں مفت آٹا تقسیم کے موقع پر ہونے والے واقعات ہوں یا پھر قبل ازیں رعایتی داموں پر سرکاری آٹا کی فروخت کے مواقع کے واقعات نہ ہی انتظامیہ او رنہ عوام نے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کی واحد تبدیلی بی آر ٹی سٹیشنز پر دیکھنے میں آتی ہے اور بسوں کے اندر بھی کسی حد تک ماحول میں موافقت نظر آتی ہے اس کے باوجود قطار توڑنے اور ہجوم کی نفسیات کے مظاہر بہرحال ہوتے ہیں جس میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے جب اس طرح ہوتا ہے تو سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کمزور اور معذور افراد کو کرنا پڑتا ہے جن کا خیال ہم سب کی معاشرتی ذمہ داری ہے ۔سوشل میڈیا پر زیر گردش متعدد ویڈیوزمیں اہلکاروں کی جانب سے بی آئی ایس پی مراکز میں خواتین کے ساتھ بدکلامی اور توہین آمیز و حقارت پرمبنی سلوک معمول کی بات لگتی ہے جسے امداد وصول کرنے کی قیمت اور نادار ہونے کی سزا کے طورپر گویا قبول کر لیا گیا ہو جسمانی طور پر بدسلوکی دھکے دینا اور لاٹھی سے ہانکنے سے لے کر تشدد تک کے واقعات بھی ہوتے ہیں جن کی فوری روک تھام کے لئے سخت ہدایات اور عملی طور پر ایسا کرنے والے اہلکاروں کو فوری سزا دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کچھ خیال کریں اور دوسروں کے لئے عبرت کا سامان ہو ۔ دنیا بھر میں حکومتیں فلاحی سکیموں کے ذریعے معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد کرتی ہیں جہاں پر باوقار اور باعزت طریقہ اپنایا جاتا ہے اور امداد وصول کرنے والوں کی تحقیر تو درکنار امداد حاصل کرنے والوں کی عزت نفس کا پور اخیال رکھتے ہوئے تقسیم کیا جاتا ہے اور وہ باآسانی اور باعزت طریقے سے حکومت کی مہربانی سے مستفید ہو کر مشکور ہوتے ہیں ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ مدد کے نام پر ان کی توہین ہوئی ہے بلکہ وہ منتظمین کے حسن سلوک کے باعث امداد لینے میں بھی جھجھک کا شکار نہیں ہوتے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صرف بی آئی ایس پی سے امداد حاصل کرنے والی خواتین سے ہی نہیں متاثرین زلزلہ و متاثرین سیلاب سے لے کر مفت آٹا اور امداد کی تقسیم کے تقریباً ہر موقع پرافسوسناک حد تک بد انتظامی اور احترام آدمیت و انسانیت کا خون ہوتا ہے ۔ ایک احسن اقدام کے لئے بھونڈے انداز اپنایا جاتا ہے اس سے اس کی ا ہمیت اور قدردانی دونوں ہی منفی درجے تک جا پہنچتے ہیں۔حکومتی اداروں کو امتیازی رویہ ترک کرنے اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے اور تمام شہریوں کے ساتھ عزو شرف کا رویہ اپنانے پرتوجہ کی اشدضرورت ہے ادھر موقع پر امدادی مراکز کی تعداد اتنی رکھی جانی چاہئے کہ نہ تو منتظمین کے لئے تھکان اور مشکلات کاباعث ہو اورنہ ہی قطاروں میں کھڑے ہونے والوں کا صبر و برداشت جواب دے جائے ۔ خاص طور پر بی آیء ایس پی ڈسٹری بیوشن پوائنٹس کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ضروری ہے بلکہ حصول امداد کے لئے دور دراز کے علاقوں کی خواتین کو لمبا سفر نہ کرنا پڑے چترال اور لوئر اور خاص طور پر اپر چترال میں حصول امداد کے لئے خواتین کو ایک دن کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے صوبہ بھر سے اس طرح کی دیگر شکایات اور مشکلات کا بھی اکثر تذکرہ ہوتا ہے ایسے میں ان کے کرایہ اور رہائش پر آنے والے اخراجات میں تقریباً آدھی امدادی رقم صرف ہوتی ہے جس سے پروگرام کی افادیت ہی کھو جاتی ہے پوائنٹس کی تعداد بڑھانے اور عملے بشمول حفاظتی اقدامات کی اصلاح ناگزیر ہے اہلکاروں کی مناسب تربیت بھی ہونی چاہئے تند خو عملے کوخاص طور پر مراکز میں کام سے دور رکھا جانا چاہئے حکومت کی امدادکمزور افراد پر احسان نہیں اس کی تقسیم کا مناسب ماحول ان کا حق ہے جس سے روگردانی دودھ میں مینگیاں ڈالنے کے مترادف ہے جس کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام