p613 77

زہر خورانی

خیبرپختونخوا اسمبلی میں توجہ دلائو نوٹس میں لیبارٹری رپورٹوں کے مطابق صوبے کے بیشتر شہروں خصوصاً پشاورمیں سبزیاں90فیصدآلودہ اورمضرصحت ہونے کی طرف حکومت کی توجہ دلائی گئی تو وزیرسماجی بہبودنے تسلیم کیا کہ وزیراعلیٰ اور متعلقہ وزیرکو اس مسئلے کاعلم ہے اور پشاور سمیت6اضلاع کے پانی کے نمونے حاصل کئے گئے ہیں جس کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ آیا یہ پانی سبزیوں یا پھلوں کو دینے کے قابل ہے یا نہیں اس طرح کی رپورٹیں پہلے بھی شائع ہوچکی ہیں اور چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے صوبے میں آلودہ پانی سے سیراب ہونے والی سبزیاں تلف کرنے کی ہدایات بھی جاری کر چکے ہیں صوبائی وزیر کے مطابق وزیراعلیٰ بھی اس مسئلے سے پوری طرح آگاہ ہیں جس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی روک تھام کب ہوسکے گی۔ خالص خوراک انسانی صحت کیلئے کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ ملاوٹ شدہ اور ناخالص اشیائے خوراک کے استعمال سے بیماریوں کی شرح میں روزافزوں اضافہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ شہر میں جہاں آلودگی، صفائی کا ناقص انتظام، صاف پانی سے محرومی جیسے مسائل لاینحل چلے آرہے ہیں وہاں غذائی ضروریات سے جڑے مسائل مزید پیچیدگی کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔خوراک کے نام پر ہم کیا کھا رہے ہیں یہ خود ہم کو بھی نہیں معلوم، خوراک سے صحت وتوانائی کا اب تصور مشکل ہوتا جارہا ہے۔ توانائی اور صحت کی بجائے بات صرف پیٹ بھرنے تک بھی نہیں بلکہ بدقسمتی سے ہم خوراک کے نام پر غذا کی بجائے زہر کھا رہے ہیں لیکن اس کا چند ایک کے سوا شاید ہی کسی کو ادراک ہو۔ اس سے بڑھ کر تشویش کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اب ہمیں قدرتی خوراک اور غذا میسر نہیں۔ سبزی عام آدمی کی خوراک ہے لیکن اب کئی اعتبار سے سبزیاں بھی زہرآلود اور مضر صحت ہوگئی ہیں۔ سبزیوں پر جراثیم کش سپرے کے اثرات باقی رہتے ہیں، مصنوعی کھاد سے سبزیوں کی نشو ونما تو ہوتی ہے لیکن قدرتی غذائیت متاثر ہوتی ہے۔ سبزیاں صاف پانی کے کھیت کی ہوں تو ان کو بازار میں لانے سے قبل آلودہ پانی سے دھوکرآلودہ بنا دیا جاتا ہے۔ اب تو گندے اور نکاسی کے پانی سے سبزیوں کو پانی دینے، کارخانوں میں استعمال شدہ پانی سے سبزیاں سیراب کرنے کا خطرناک عمل سبزیوں کو اور بھی زہرآلود اور مضر صحت بنا دینے کا باعث بن رہا ہے۔ پولٹری کی صنعت کو فروغ دینے کے نام پر جو برائلر چکن ہر گھرانے اور خاص طور پر بچوں کی من پسند غذا بن گئی ہے چالیس دن میں فروخت کے قابل بنانے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لالچ میں فارمی چوزوں کو ایسی غذا دی جا رہی ہے جن کے مضر صحت ہونے کے حوالے سے پوری طرح اتفاق ہے۔ بچے پروسسڈ فوڈ کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ نوڈلز سے لیکر مضر صحت تیل میں حفظان صحت کے اصولوں کے سراسر منافی ماحول میں تیار کئے جانے والے چپس اور اس جیسی دیگر اشیاء نہ تو غذائیت بخش ہیں اور نہ ہی صحت بخش بلکہ اُلٹا مضر صحت اور بچوں کی نشو ونما روک دینے اور ہارمونز کے توازن کو بگاڑنے کا باعث ہیں۔ ستم بالائے ستم دودھ کیمیکل سے بنا ہوا اور گوشت انجکشن لگا کر پانی سے بھر دیا جاتا ہے۔ گائے بھینسوں کو انجکشن لگا لگا کر مصنوعی طریقے سے دودھ حاصل کرکے پھر اس دودھ میں بھی ملاوٹ کرکے اور پانی ملا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ حکومت کو جہاں مضرصحت اشیاء کی فروخت کی روک تھام کی ذمہ داری نبھانی چاہئے وہاں یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم مضر صحت مرغیاں’ کولڈ ڈرنکس اور اس قسم کی دیگر مشروبات اور اشیائے خوردنی سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر کے بھی نبھا سکتے ہیں۔ اگر ہم من حیث القوم اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ کونسی اشیاء ومشروبات کا استعمال ترک کرنا ہے اور اس پر قائم رہیں تو ان کی پیداوار پر لازمی اثر پڑے گا اور یہ کاروبار ترقی کرنے کی بجائے زوال پذیر ہوں گے۔ ایسا کرنے کے بعد ہی ہمیں متبادل خوراک اور مشروبات میسر آسکیں گی۔ جب تک ہم عوام اپنی صحت کا آپ خیال رکھنے کا رویہ اختیار نہ کریں اور صرف حکومت اور حکومتی اداروں کو ذمہ دار ٹھہراتے رہیں تو یہ مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوں گے۔ خیبر پختونخوا میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق خوراک کی تیاری اور فروخت، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ اور جعلی خوراک کی اشیاء کی فروخت کی روک تھام کے حوالے سے صوبہ بھر میں فوڈ اتھارٹی کا عملہ متحرک ہونے کے باوجود سامنے آنے والی صورتحال مزید تشویش کا باعث امر اس لئے ہے کہ اب شعور وآگہی کے حصول کے بعد شعوری اور نفسیاتی طور پر خوراکی اشیاء زہر لگنے لگی ہیں۔ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ اس قدر ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز خالص نہیں رہی، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق براہ راست انسانی صحت اور زندگی سے ہے جس کے تحفظ کیلئے جاری اقدامات کا ناکافی ہونا طے ہے اس ضمن میں سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن