ساحل پہ کھڑ ے ہو۔۔۔۔۔

ٹیلی وژن پر بس ایک ہی منظر ہے اور وہ پانی ہے ۔ پانی پانی اور بس پانی ۔ شہر ،قریے ، گاؤں شہر سب کے سب پانی کی زد میں ہیں ۔ اس سیلاب سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں ۔اورہزاروں کی تعداد میں انسان زخمی ہیں ۔غریب کسانوں کو روزی روٹی دینے والے ہزاروں مویشی پانی میں غرقاب ہوگئے۔یہی مال مویشی ان کا سرمایہ تھے ۔محنت اور مشقت سے اگائی ہزاروں ایکٹر کھڑی فصلیں بہہ گئیں ۔ جگہ جگہ سڑکیں پل پانی کے سنگ سنگ چل پڑے ۔ دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے جیسے مٹ ہی گئے جیسے وہ پہلے کبھی تھے ہی نہیں ۔یعنی ایک قیامت ہے کہ برپا ہے۔ ہر طرف سے بری خبریں ہی آرہی ہیں۔ اور بارش ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ سیلاب ہے کہ اس کا غصہ اترتے نہیں اتر رہا ۔لوگ بے آسرا ہوچکے اور عجیب بے سروسامانی کا عالم ۔کل کے رئیس آج کے قلاش ہوگئے کہ ان کا سب مال و متاع پانی میں بہہ گیا ہے ۔ ایسے بھی ہیں جو سیلاب کے کیچڑ سے اپنے پیاروں کو تلاش بھی نہ کرسکے ۔خدا جانے کہ یہ زندگی کب اور کیسے بحال ہوپائے گی ۔ بے شک قدرتی آفت کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا ۔ وطن عزیز اس آفت کی زد میں ہے ۔ سیلاب امریکہ جیسے طاقتور ملک میں بھی آتے ہیںجانی مالی نقصان وہاں بھی ہوتے ہیں۔مگر وہاں کچھ تو آفت سے پہلے انتظام کرلیا جاتاہے اور کچھ آفت آنے کے بعد لوگوں کی مدد ایسی کی جاتی ہے کہ نقصان کم سے کم ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے نصیب کی آفتیں تباہ کن ہوا کرتی ہیں۔ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بن جاتا ہے ہمارا سماج ۔ سال کے بیشتر مہینوں میں پانی کو ترسنے والے بہت سے لوگوں کے لیے پانی قاتل بن جاتاہے ۔اتنے بڑے سانحے کو بھلا ایسی صورت میں کون روک سکتا ہے کہ جب کوئی نظام ہی موجود نہ ہو۔ ایک ہی تونیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ہے جو ہر جگہ پہنچنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے ۔ یہ تو مقولہ ہے کہ سیلاب سے پہلے بند باندھے جاتے ہیں ۔ سیلاب سر پر آجائے تو بندھ نہیں بندھتے ۔سو اس آفت کی تباہ کاریوں میں صاحب اقتدار لوگوں کا بھی اتنا ہی قصور ہے کہ جتنا قصوروار اس آفت کو ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔ کون پوچھے اور کس سے پوچھے کہ ہر برس مون سون کی بارشوں سے سیلاب کا خوف رہتا ہے ۔ کرتادھرتا لوگوں نے کیا کیا ؟ کتنا عجیب ہے کہ اللہ کی بہت بڑی نعمت پانی کو ہم خود زحمت بنالیتے ہیں ۔ اگر انہی پانیوں کو مختلف مقامات کہ جہاں جہاں سیلاب کے خطرات ہیں وہاں وہاں ذخیرہ کرنے کا بندوبست کیا جاسکے تو نقصاں کم سے کم ہو لیکن ہمیں تو بس سیلاب کے دنوں مہنگے لانگ شوز پہن کر گھٹنے گھٹنے پانی میں اتر کر تصویریں کھچوا کر سکون مل جاتاہے ۔سوشل میڈیا پر واہ واہ ہوتی ہے کہ صاحب کے دل میں کتنا درد ہے ۔حکمرانوں میں عوام کے لیے درد دل کا عشر عشیر بھی آجائے تو ملک کی تقدیر بدل جائے ۔ ایک مہنگائی اوپر سے سیلاب کا عذاب الہٰی ۔عوام جائے تو کہاں جائے ۔ جو ڈوب گئے وہ تو غموں سے خلاصی پاگئے اور جو پچ گئے وہ مفتاح اسماعیل کے فارمولے پر بجلی کے بل جمع کرواکروا کر زندہ درگور ہوجائیں گے ۔ لیکن بادشاہوں کی بادشاہت بہرحال قائم رہے گی کہ ماشاء اللہ اسلام آباد پانی کی زد میں نہیں ہے کہ جہاں بادشاہتوں کے مزے لیے جاسکتے ہیں ۔ بلوچستان ،جنوبی پنجاب ، ڈی آئی خان اور اب سوات بھی بارشوں کی زدمیں ہیں ۔آسمان سے برستا پانی اوربرف کے پگھلتے گلیشئیر ز کا پانی مل کر ایک ہیبت طااری کیے ہوئے ہیں ۔ سو شل میڈیا پر ایسے ایسے مناظر شئیر کیے جارہے ہیں کہ ہر ہر منظر کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے زندہ بچ جانے والے لوگ انتہائی مشکل حالات میں ہیں ۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگیاں بھی بچارہے ہیں اور محفوظ مقامات کی جانب سفر پر آمادہ ہیں ۔ اس انسانی المیے پر وفاقی سطح پر بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ہورہا ۔ حکومت کا کام بس اپنا اقتدار قائم رکھنا ہے ۔ ایسے موقع پر بھی سیاسی بیانات سن کر سخت کوفت ہوتی ہے ۔ حکومتوں کا تو کام ہی عوام کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے لیکن جب عوام ہی کو نظر انداز کردیا جائے تو کیا کیا جاسکتا ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مفتاح اسماعیل سے کوئی مہنگائی کے حوالے سے سوال کرے توان کے چہرے پر پہلے ایک مسکراہٹ پھیلتی ہے اور پھر بڑے اطمینان سے فرماتے ہیںکہ سبسڈی حکومت برداشت نہیں کرسکتی گویا کہ بھاڑ میں جاؤ۔ ایک طرف سیلاب اور ایک طرف مہنگائی نے عوام کا جینا
دو بھر کردیا ہے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ہر دوسرے تیسرے برس سیلاب آجاتا ہے ۔ عوامی نمائندے بس چیخ و پکار ، الزام تراشیوں اور بیان بازیوں میں ہی یہ وقت گزارلیتے ہیں لیکن اس کے بعد نہ ہی پانی کے ذخیرے بنانے ، پانی سے بجلی کے ڈیم بنانے ، نہریں کھودنے یا دریاؤں کے پشتے باندھنے پر کوئی بات نہیں ہوتی نہ ہی اس پر عمل ہوتا ہے ۔ گویا ایک نئے سیلاب کی تباہ کاریوں کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ ایک نئے المیے کو اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا جاتا ہے۔ ایسی بے اماں قوم کا نصیب ہے یہ سارے منظر جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اور اس منظر کا ایک ہی مٹیا لا رنگ ہے ۔ پانی بپھرا ہوا ہوا ،بستیوں کواجاڑکر رکھ دینے والا غصیلا پانی ۔ اس ساری صورتحال میں مجھے نہ جانے کیوں آفتاب مُضطرکی یہ غزل آنکھوں میں دھواں بھردیتی ہے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند