سانپ سیڑھی کا کھیل نہیں ہے سیاست

سیاست ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل ہی ہے، اختلاف رائے کا اظہار تحمل وتدبر کے ساتھ ہو تو سیاسی عمل کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھتا رہتا ہے، مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اختلاف رائے کی جگہ اوئے توئے سے عبارت بدزبانی اور جھوٹ کی طو مار لے لے، پاکستانی سیاست پچھلی کئی دہایئوں سے سیاسی اقدار کو روند کر جس طرح آگے بڑھ رہی ہے اس کے نتائج کسی سے بھی مخفی نہیں، اس صورتحال کی ذمہ دار تقریباً سب ہی سیاسی جماعتیں ہیں لیکن ان سے کچھ زیادہ ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے قومی وسائل سے اپنی ہی مملکت کے سیاسی نظام اور سیاسی رہنمائوں کے خلاف پروپیگنڈہ کروایا اور ایک ایسی نسل تیار کی جو گالی دیئے اور غلاظت اگلے بغیر دو منٹ کلام نہیں کرسکتی ، یہ منفی روش گزرے کل اور آج کی ہی نہیں کئی دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ اسے اپنے ایجنڈے کے تحت آگے بڑھاتی آرہی ہے، غور طلب امر یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ بھاری بھرکم وسائل پروپیگنڈے پہ برباد کرکے مقاصد حاصل کر پائی؟ عمومی رائے یہ ہے کہ سیاسی عمل اور سیاست دانوں کے خلاف محنت سے تیار کیا گیا لشکر جرار الٹا اسٹیبلشمنٹ کے گلے پڑ گیا، محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ مروجہ سیاسی عمل خود بھی شائستہ اختلاف کی بجائے طوفان بدتمیزی سے رزق پاتا ہے، طوفان بدتمیزی مختلف ادوار میں کس کی سرپرستی میں کس کے خلاف شروع ہوا اس حقیقت سے صرف نظر بہت مشکل ہے، فی الوقت یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس طوفان بدتمیزی کے مختلف ادوار میں آلہ کار بننے والوں میں سے کسی نے بھی سبق نہیں سیکھا، حالانکہ یہ امر بطور خاص پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہمیشہ رہی کہ سیاسی عمل میں تدبر تحمل، برداشت کی اہمیت حاصل ہے، تلخی، اوئے توئے کی پھبتیاں، کردار کشی صاف ستھرے سیاسی عمل کے لئے زہر قاتل ہیں افسوس یہ ہے کہ اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی ہورہی ہے نا ہی قریب قریب اس کی کوئی امید ہے، بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ اسی فضا میں انتخابی مہم شروع ہو گی سیاسی جماعتیں مستقبل کے حوالے سے پروگرام رائے دہندگان کے سامنے رکھنے کی بجائے دشنام طرازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مقابلہ کرتی دیکھائی دیں گی، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ کسی سے مخفی نہیں ماسوائے ان قائدین کے جن کے خیال میں جو ہے اور جس طرح ہو رہا ہے اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وقت ہمیں بہتری کی طرف لے جائے گا، یہ سوچ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی خواہش جیسی ہے، اصولی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ اگر دشنام طرازی اور بدزبانی کے ملاکھڑوں کا شوق تمام نہ ہوا اور ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرتے ہوئے تحمل کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرنے کی فہم نے رواج نہ پایا تو خمیازہ سب ہی کو بھگتنا ہوگا اس سے بہتر ہے کہ غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے، افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کی اکثریت ظرف کے مظاہرہ میں کھٹور ثابت ہوئی، یہ بجا ہے کہ اس صورتحال سے نجات کی خواہش پر کس وناکس کو ہے مگر کیا محض خواہشوں سے اصلاح احوال ممکن ہے یا عملی پیش رفت بہت ضروری ہے؟ بعض اطلاعات کی بنیاد پر توقع ظاہر کی جارہی کہ آئندہ عام انتخابات جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں منعقد ہوں گے، ایسا ہوتا ہے تو یہ انتہائی مثبت عمل ہو گا انتخابات کے بغیر سیاسی عدم استحکام سے نجات کی کوئی صورت نہیں معاشی ابتری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے اور بعض دوسرے روزمرہ کے مسائل بھی، دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا انتخابی عمل میں سب کو بلا امتیاز شرکت کی اجازت ہوگی؟ پچھلے کچھ دنوں میں بعض ایسے امور سرانجام پائے ہیں جن کی وجہ سے ہر خاص وعام یہ کہتا دیکھائی دیتا ہے کہ اس بار بھی ماضی کی طرح خاص قسم کی مینجمنٹ ہوگی، یہ امر ہر باشعور شہری پر دوچند ہے کہ پاکستان میں آزادانہ ومنصفانہ انتخابات ہمیشہ ایک خواب ہی رہے ملکی تاریخ کے جس ایک انتخابات کو آزادانہ کہنے کی غلط العام سوچ کا ہمارے ہاں ہمیشہ سے دور دورہ رہا ہے 1970ء کے ان انتخابات میں بھی مارشل لاء حکومت کے سربراہ کمانڈر ان چیف جنرل آغا یحییٰ خان اور ان کے رفقاء مسلم لیگ قیوم گروپ۔ نظام اسلام پارٹی اور جماعت اسلامی پر مہربان رہے، پرجوش ریاستی مہربانی سے گو من پسند نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے لیکن اس نے یہ واضع کر دیا کہ ان انتخابات کو ملکی تاریخ کے آز ادانہ ومنصفانہ انتخابات قرار دینے والے لوگوں کو مخصوص مقاصد کے لئے گمراہ کرتے آرہے ہیں، ہمارے ہاں ریاستی اشرافیہ اس کے معاون طبقات اور ریاستی اشرافیہ کی خوشنودی کے حصول کے خواہش مند سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں نے کبھی اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کہ ہر نئے انتخابات کے بعد رائے دہندگان کا انتخابی عمل اور جمہوریت پر اعتماد مزید متزلزل ہوتا جارہا ہے ماضی قریب کے صرف دو انتخابات (2013اور 2018ء ) کے نتائج پر عمومی آرء ا اس امر کا ثبوت ہیں کہ تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود ان کے نتائج پر لوگوں کو تحفظات تھے اور ان تحفظات کا مسلسل اظہار بھی کیا جاتا رہا۔ 2018ء کے انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی بعض ملکی اداروں کے تعاون سے اس قدر کھلی مداخلت اور مینجمنٹ تھی کہ اس سے جو سیاہی انتخابی نظام کے چہرے پر ملی گئی وہ ابھی تک جوں کی توں ہے، افسوس صد افسوس کہ اب جبکہ عام انتخابات کے انعقاد میں بعض اطلاعات کے مطابق تین ماہ رہ گئے ہیں، یہ تاثر عام ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس بار بھی کوئی پسندیدہ ہے اور کوئی بدترین ناپسندیدہ، یہ عمومی سوچ اگر درست ہے تو یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ نہ صرف انتخابی نتائج متنازع ہوں گے بلکہ سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا، جس کے زندگی کے تمام شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ، نگران حکومت اور دوسرے ملکی اداروں کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ پسند وناپسند کے کھیل سے حظ اٹھانے کی بجائے معاملہ رائے دہندگان پر چھوڑ دیا جائے تو مناسب رہے گا، عوام کو مستقبل کے لیے اپنی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ موقع ملنا چاہئے، مینجمنٹ سے لائی گئی قیادت 2018ء میں لائی گئی قیادت سے بھی زیادہ نااہل اور مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہوگی، امید واثق ہے کہ ارباب حکومت واختیار اور ان کے معاونین ملکی حالات اور مسائل کے پیش نظر ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اور اس امر کو بہر صورت یقینی بنائیں گے کہ آئندہ عام انتخابات آز ادانہ ومنصفانہ ہوں اور ان میں کسی روک ٹوک کے بغیر تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ ملک اور عوام جن مسائل سے دوچار ہیں ان کا حل تلاش کرنے میں مزید کوئی رکاوٹ نہ پیش آئے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار