ستارہ کیامری تقدیر کی خبردے گا

شمسی سال کے آخری دن ہیں اوراس کالم کے شائع ہونے اور نئے سال کے آغازمیں زیادہ فاصلہ نہیں ہے ‘ ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ان دنوں میں پیشگوئیوں والے بابے اور بیبیاں سرگرم ہوجایا کرتے تھے ‘ مغرب میں تو یہ کاروبار بہت زیادہ چمکتا ہے’ وہاں اب بھی اس حوالے سے بہت زیادہ سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں کئی ایک ادارے ہر سال مختلف سیاروں کی گردش اور ان کے انسانوں کی قسمت پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے کتابچے شائع کرتے ہیں جنہیں انگریزی میں ہوروسکوپ کہتے ہیں اور لوگ اپنے اپنے ستاروں سے متعلق یہ کتابچے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں خرید کر اگر اپنی تقدیر بدلنے میں کامیاب یا ناکام ہوتے ہیں یا نہیں مگر یہ ہوروسکوپ شائع ہونے والوں کی قسمت ضرور بدل دیتے ہیں یعنی ان کتابوں کا کاروبارخوب خوب چمکتاہے’ ادھر ہمارے ہاں بھی کئی ایک اخبارات روزانہ یا پھر کم از کم ہفتہ وارکالموں میں”آپ کا یہ ہفتہ کیسا رہے گا” جیسی پیشگوئیاں شائع کرکے دلچسپ صورتحال پیدا کرتے رہتے ہیں ‘ عالمی سطح کی ایک خاتون پیش بین جن کا نام جین ڈکسن تھا ‘ ایک عرصے تک بین الاقوامی سیاسی ‘ معاشی حوالوں سے دسمبر کے آخری دنوں میںاسی قسم کی پیشگوئیاں کرتی تھیں ان کی وہ پیش گوئیاں جو مختلف ملکوں کے آپس کے تعلقات ‘ جنگوں ‘ اقتصادی ‘ سماجی حوالوں سے ہوتی تھیں ‘ اکثر درست ثابت ہوتیں ‘ بلکہ مختلف ملکوں میں حکومتوں کے تختے الٹنے ‘ نئی حکومتیں قائم ہونے کے حوالے سے جو کچھ وہ دعوے کرتیں ان کا”ظہور” آگے چل کر دنیا کو حیران کردیتا ‘ بعد میں اس قسم کے دعوے بھی سامنے آئے کہ دراصل وہ درپردہ امریکی سی آئی اے کے لئے کام کرتی تھیں ‘ اگرچہ کچھ نہ کچھ ان کو علوم فلکیات پر دسترس ضرور تھی مگرانہیں شہرت ایسی ہی پیشگوئیوں نے دلا دی تھی جو ”سی آئی اے”کے مقاصد پورے کرنے کا باعث بنتی تھیں ‘ ہمارے ہاں ایک اہم قومی اخبار کامشہور زمانہ ہفتہ وار رسالہ جین ڈکسن کی پیشگوئیاں تفصیل سے شائع کرکے لوگوں کوعالمی سطح پر سیاسی اتار چڑھائو سے باخبر رکھتا تاہم اس حوالے سے مذکوروہ رسالہ صحافتی ڈنڈی ماری بھی یوں کرتا کہ اگر وہ خاتون بھارت کے حوالے سے کوئی منفی پیشگوئی کرتی تواس کو بڑھا چڑھا کرسامنے لاتا جبکہ پاکستان کے حوالے سے بس مختصر مختصر سا ”سب اچھا ہے” کی رپورٹ شائع کرکے اپنے عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ۔اب ستاروں کی چالوں کی اصل حقیقت کیا ہے ‘ ایک تواس ضمن میں ہمارے مذہب نے جوبات ہمیں سمجھائی ہے اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ بقول شاعر
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخئی ا فلاک میں ہے خوار وزبوں
اس لئے اصولی طور پر اسے شیطانی کاروبار قرار دے کر اس سے حذرکی ہدایت کی گئی ہے ‘ کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ‘ مگر انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت انسان لاکھوں کروڑوں سالوں سے اپنے آنے والے دنوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے اور اب ان علوم کے داعی اس بات کی آڑ میں پناہ لیتے ہیں کہ ہم توصرف سائنسی بنیادوں پرصرف حالات کاجائزہ لے کرصرف ممکنہ نتائج کے بارے میں بتاتے ہیں ‘ آگے یہ درست ثابت ہوتے ہیں یاغلط ان سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے’ مگر ضعیف الاعتقادی کا شکارلوگ اس قسم کی پیشگوئیوں کو درست مان لیتے ہیں اور بعض اوقات اتفاق سے اگر نتائج واقعی پیش بینوں کے بیانات کے مطابق نکل آئیں تو ان کے عقیدے راسخ ہوجاتے ہیں ‘ حالانکہ ایک شاعر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا تھا کہ
کن نصیبوں پرکیا اخترشناس
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا
ہمارے ہاں بھی اس قسم کے”اخترشناسوں” کی تعداد کم نہیں اور کئی ایک ٹی وی چینلز بھی اکثراہم موقعوں پریعنی سال کے آخر میں نئے سال کے حوالے سے نجومیوں ‘ پامسٹوں ‘ نکتہ وروں اور ٹیلی کارڈ ماہرین کو ایک پروگرام میںاکٹھا کرکے ملکی حالات کے بارے میں سوال جواب کے سیشنز چلاتے ہیں ‘ اس کے علاوہ اکثر جب ملک میںانتخابی معرکہ برپا ہونے والا ہو تب بھی ان ”ماہرین” کویکجا کرکے ان کی رائے لی جاتی ہے ‘ اور حیرت اس وقت ہوتی ہے جب یہ اپنے اپنے علم کے مطابق جو وعدے کرتے ہیں بعض اوقات ان میںبعد المشرقین کی صورت حال ہوتی ہے مثلاً ایک ماہر علم نجوم اگربتاتا ہے کہ فلاں جماعت اکثریت حاصل کرسکتی ہے تودوسرے علم کاماہر اس سے اختلاف کرتا ہے اور پہلے والے کے دعوے کو اگرمکمل نہیں توجزوی طورپر رد کر دیتا ہے ‘ اسی طرح بعض اوقات کسی سیاسی رہنماء کی شادی کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو اس میں بھی سو فیصد اتفاق والی صورتحال نہیں ہوتی ‘ یا توشادی کی تاریخوں میں فرق ہوتا ہے یاپھرشادی تازہ تازہ ہو تواس کے حوالے سے بھی مختلف النوع قسم کے دعوے کئے جاتے ہیں غرض مکمل اتفاق کاان ماہرین کے بیانات میںتضاد رہتا ہے اب بندہ سوچتا ہے کہ کس کی بات سچ اورکس کی غلط (جھوٹ کے لفظ سے احتراز کرتے ہوئے) قرار دی جائے ‘ اور پھر ہوتا یہ ہے کہ جب کچھ عرصہ گزرجاتا ہے اورکسی ایک کے دعوے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو وہ ایک بار پھرٹی وی سکرین پرنمودار ہوکراپنے دعوے کے حوالے سے بڑیں ہانکنا شروع ہوجاتا ہے اور اب تو یہ ایک الگ سے کاروبار بن گیا ہے یعنی ان پیش بینوں نے اپنے اپنے یوٹیوب چینل کھول کر علیحدہ سے کمائی شروع کردی ہے ‘ اور نہ صرف یوٹیوب ‘ ٹویٹر ‘ فیس بک وغیرہ سے کمائی کرتے ہیں بلکہ اپنے فون نمبرزجاری کرکے لوگوں کومشورے دینے کے الگ بھاری رقوم حاصل کرتے ہیں ‘ جس کے لئے پہلے سے باقاعدہ اپوائمنٹ لی جاتی ہے ۔ اب ان لوگوں میں ایک سیاسی بابے کا بھی اضافہ ہو گیا ہے جس نے سیاسی پیشگوئی کی ہے کہ ان کے مطابق الیکشن مارچ ‘اپریل 2023ء میں ہو جائیں گے ۔ اب کم ازکم اپریل تک تو انتظار کرنا پڑے گا کہ ان کا دعویٰ سچا ہے یاپھر ایک آدھ انچ کی کمی رہ جانے کی بناء پر انگریزی کے لفظ ”Other wise” والی صورت بنتی ہے ‘ یعنی بقول ضیا جالندھری
وہی لب تشنگی اپنی ‘ وہی ترغیب سراب
دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند