1 400

سفارتکاروں کا ایک اور نمائشی دورۂ کشمیر

بھارت نے ایک بار پھر مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنے سیاہ کرتوت چھپانے اور دنیا کی نگاہوں میں دھول جھونکنے کیلئے چوبیس ملکوں کے سفارت کاروں کو مقبوضہ علاقے کا دو روزہ دورہ کرایا۔ چوبیس رکنی وفد میں چلی، برازیل، کیوبا، بولیویا، کیوبا، اسٹونیا، فن لینڈ، فرانس، آئرلینڈ، نیدر لینڈ، پرتگال، بلجیم، سپین، سویڈن، اٹلی، بنگلہ دیش، ملاوی، گھانا، ایوری کوسٹ، سنیگال، ملائیشیا، تاجکستان اور کرغزستان کے سفیر اور سفارتکار شامل تھے۔ اس دورے سے پہلے ہی آزاد تجزیہ نگاروں نے اسے ”شوکیس” قرار دیا تھا۔ پانچ اگست کے بعد یہ دہلی میں مقیم غیرملکی سفارتکاروں کا تیسرا دورہ تھا۔ اکتوبر2019 کو پہلی بار بھارت نے سفارتکاروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر کشمیر پہنچایا تھا۔ یہ دورہ بعد میں تنازعات کی زد میں آیا تھا کیونکہ یہ سوال اُٹھا تھا کہ اس دورے کا میزبان کون ہے اور کس کی دعوت پر ان نمائندوں نے کشمیر جانے کا فیصلہ کیا ہے؟ بعد میں پتا چلا کہ اس مقصد کیلئے یورپ میں قائم ایک فیک تنظیم کا نام اور لیٹر ہیڈ استعمال کیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت نے اس دورے کو ذاتی دورہ کہہ کر سوالوں سے دامن چھڑا لیا تھا۔ نومبر2020 میں یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزف بورل نے ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا تھا کہ یورپی یونین کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ بورل نے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات پر زور دیا تھا۔ اس سے پہلے یورپی یونین ڈس انفولیب نے پاکستان کیخلاف بھارتی پروپیگنڈے اور جھوٹ سازی کی فیکٹری کا سراغ لگایا تھا۔ ڈس انفولیب کی اس رپورٹ نے بھارت کو یورپ میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا تھا۔ ایسے میں بھارت نے 4G انٹرنیٹ بحال کر دیا اور اس کے فو راً بعد بھارت نے غیرملکی سفارتکاروں کو پہلے کی طرح بھیڑ بکریوں کی طرح جہازوں اور گاڑیوں میں بھر کر سری نگر اور جموں کا دورہ کرایا گیا۔ ان ملکوں کے سفارتکاروں کو ایک مخصوص ماحول اور سانچے میں عام آدمی سے دور رکھا گیا۔ وفد کے ارکان سری نگر ایئر پورٹ اُتر رہے تھے تو ایئرپورٹ سے باہر ہڑتال تھی۔ کاروبارحیات معطل تھا اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ سفارتکاروں کو وہی دکھایا گیا جو بھارت دکھانا چاہتا تھا اور انہی لوگوں سے ملوایا گیا جو بھارت کی زبان بولتے تھے۔ حد تو یہ کہ سری نگر میں موجود سیاستدانوں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی سفارتکاروں سے دور رکھا گیا۔ عمر عبداللہ نے پہلے ہی اس دورے کو بے مقصد اور فضول مشق قرار دیا تھا۔ سفارتکاروں کو جموں کشمیر کا دورہ کرانے کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ کشمیر کے حالات اب معمول پر آچکے ہیں۔ پنچایتی انتخابات کے بعد یہاں جمہوریت بحال ہو چکی ہے۔ بھارت کشمیر میں اپنی سیاہ کاریوں کو چھپانے کیلئے ہر حیلہ اختیار کر رہا ہے، یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ متعلقہ ممالک کو محض سیر وتفریح اور دعوتیں اُڑانے کے شوق میں اپنے سفارتکاروں کی ان حرکتوں کا نوٹس لینا چاہئے۔ ان کے یہ بے مقصد دورے بھارت کے جنگی جرائم اور انسانیت دشمن چہرے کو چھپا نہیں سکتے۔ قیدیوں کی طرح سفارتکاروں کو کشمیر لانا، انہیں حالات کو دیکھنے کیلئے ایک مخصوص عینک اور آوازیں سننے کیلئے مخصوص آلۂ سماعت پہنانا حقیقت میں انسانیت کی توہین ہے۔ کشمیر کی اصل تصویر یہ ہے کہ ہزاروں قیدی کشمیر کی جیلوں اور کشمیر سے سیکڑوں میل دور بھارت کی دور دراز جیلوں میں بند ہیں۔ جرأتِ اظہار کیلئے مشہور کشمیر کا میڈیا بدترین سنسر کی زد میں ہے۔
لوگ کشمیر کے اخبارات صرف پکوڑوں کیلئے خریدتے ہیں۔ کشمیر کے کئی صحافی کئی ماہ سے قید ہیں۔ کئی ایک پر مقدمات قائم ہیں اور ان سے تھانوں میں حاضریاں لگوائی جا رہی ہیں۔ صحافت کی دنیا سے وابستہ جرأتِ اظہار کیلئے مشہور کئی نام خاموش کر دئیے گئے ہیں۔ اخبارات کی کمی کو دور کرنے کیلئے ویب پیجز بنائے گئے ہیں مگر منظم اور مربوط میڈیا کی کمی سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے دور نہیں کی جا سکتی۔ آزادیٔ اظہار نام کی چڑیا کا اب کشمیر کی وادیوں میں گزر ہی نہیں ہوتا۔ مسلح تصادم کے نام پر نوجوانوں کا قتل عام جاری ہے۔ کشمیر کے سیاستدانوں اور سکالرز اور وکلاء پر قانونی زباں بندی لاگو ہے۔ ایسے میں اگر کسی کو کشمیر میں سب اچھا نظر آتا ہے تو اسے فریب نظر ہی کہا جاسکتا ہے۔ افسوس اور حیرت ان سفارتکاروں پر ہے جو ایک دورے اور خاطر تواضع پر سب کچھ بھول کر حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔ چند دن قبل سری نگر کے علاقے ترال کے رہائشی سماجی کارکن یونس راتھر کشمیر کے 79سالہ سیاسی قیدی محمد اشرف صحرائی سے جیل میں ملاقات کا احوال بتا رہے تھے۔ اشرف صحرائی دہشت گرد ہیں نہ عسکریت پسند اور نہ کسی ملک کے جاسوس، ایک جانے پہچانے سیاسی قیدی کیساتھ ملاقات کا یہ انداز جبر اور جماؤ کی شدت اور سختی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے سیکڑوں قیدی دہلی اور آگرہ تک کی جیلوں میں قید ہیں، جن سے ملاقات کیلئے عزیر واقارب کو پہنچنے کیلئے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ کشمیر کی اصلی تصویر ہے جسے بھارت سفارتکاروں کی دعوتوں اور سیر وسیاحت کے پردے کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان