سفارتی تعلقات بھی خطرے میں

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانی ناظم الامور سکیورٹی کی یقین دہانی ہونے تک افغانستان نہیںجائیں گے۔میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کا کہناتھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی سفارت خانے اور سفارتی عملے کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ افغانستان کے لیے پاکستانی ناظم الامور تاحال پاکستان ہی میں ہیں اور جب تک سکیورٹی معاملات پر یقین دہانی نہیں کروائی جاتی، تب تک وہ پاکستان ہی میں رہیں گے۔قاتلانہ حملے میں محفوظ رہنے کے بعد سے افغانستان میں پاکستانی ناظم الامور کی پاکستان آمد اور عدم واپسی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے انقطاع پر نہیں تو سفارتی سطح پر تعلقات کی کمزور سطح پر موجودگی پردال ضرور ہے اب افغانستان پاکستان کے لئے نہ صرف سرحدی خلاف ورزی کے حوالے سے ہی ناپسندیدہ ہمسایہ کی صورت اختیار کرگیا ہے بلکہ پاکستان کواس امر کابھی ا طمینان نہیں کہ وہ سفارت کاروں کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے ہمسایہ اسلامی ملک ہونے کے ناتے بجائے اس کے کہ دونوں ممالک کے درمیان مثالی تعلقات ہوتے اور طالبان پاکستان کی اس مدد اور تعاون پرمشکور ہوتے جس کی بدولت آج وہ تخت کابل پر براجمان ہیں انہیں شاید پاکستان میں گزارے بیس پچیس اور تیس چالیس سالوں کی میزبانی بھی یاد نہیں کہ وہ آج سرحدی باڑ پر تنازعے کو بجائے اس کے کہ مفاہمانہ طور پر طے کرنے کی سعی کرتے سوسالہ حد بندی پر پاکستان پرحملہ آور ہو رہے ہیں جس سے ان سے قبل کی حکومتیں بھی گریز کرتی آئی ہیں طالبان قیادت کو اس امر پرغور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس صورتحال کوتادیر برداشت نہیں کرے گا اور افغانستان میںپاکستانی سا لمیت اور جغرافیائی حدود کے حوالے سے طالبان حکومت کی ناک کے نیچے جو ہرزہ سرائیاں کر رہے ہیں اس کا مسکت جواب دینے پر مجبور ہو سکتا ہے ایک لینڈ لاک ملک کے طور پرافغانستان کا بہترین مفاد ہمسائیوں سے اچھے تعلقات ہیں جس کا جتنا جلد ادراک کیاجائے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
وزیرخارجہ کن کے ترجمان ہیں؟
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ روس سے رعایتی قیمت پر توانائی حاصل نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی کوشش کر رہے ہیں ۔امریکی نشریاتی ادارے پبلک براڈکاسٹنگ سروس کو ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور امریکا کے لیے یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہم ایسے شعبے تلاش کریں، جن میں ہم ایک ساتھ کام کرنے پر متفق ہوں، ہم ماحولیات اور صحت پر مل کر کام کر رہے ہیں، ہم خاص طور پر خواتین کے لیے کاروباری اور اقتصادی مواقع تلاش کر رہے ہیں۔انہوں نے پاک۔امریکا تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا تاریخی رشتہ ہے، جو 1950 کی دہائی سے قائم ہے، جب بھی امریکا اور پاکستان نے مل کر کام کیا، ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جب بھی ہمارے درمیان کوئی فاصلہ پیدا ہوا تو ہم نے اس سے نقصان اٹھایا۔دیگر وفاقی وزراء کی جانب سے روس سے سستے تیل کے حصول کی سعی اوراسے پاکستان کا حق گرداننے کے برعکس وزیر خارجہ کا بیان حیران کن ہی نہیں بلکہ اس سے ایک مرتبہ پھرامریکا کی خوشنودی کے لئے پاکستانی مفادات کوقربان کرنے کی بوآتی ہے جن جن شعبوں میں تعاون کا انہو ں نے ذکرکیا ہے وہ پاکستان کامفاد اوردلچسپی کے شعبے کم اور امریکی دلچسپی کے شعبے زیادہ ہیں۔بجائے اس کے کہ وزیر خارجہ روس سے سستے تیل بلکہ دنیا میں جہاں سے بھی تیل لینے میں ملک کافائدہ ہو ایسا کرنے میں تامل نہ کرنے اوراسے اپنا حق گردانتے ایسا کرنے کی بجائے موصوف کی جانب سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیاگیا جس سے قوم کامایوس ہونا فطری امر ہو گا پاکستان کوکسی بڑی طاقت کے غلام کا کردار ادا کرنے کی نہیں بلکہ اپنے مفادات و ضروریات کااظہار اورملکی مفاد میںان کے حصول کے عزم کا اظہار کرنا چاہئے نہ کہ ایک جاری کوشش ہی کو مشکوک بنادیا جائے ۔
خطر ے کی گھنٹی
خیبرپختونخوا خصوصاً پشاور میں بھتہ خوری اور اغوا کے بڑھتے واقعات کے خلاف تاجروں کا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو خط لکھ کر انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے مداخلت کی درخواست صوبائی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے یہ خط کسی مخالف سیاسی جماعت کے حامی تاجروںکی جانب سے نہیں بلکہ انصاف تاجران ونگ کی جانب سے بھیجا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے خصوصاً پشاور میں اغوااور بھتہ خوری کی وارداتیں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں اور امن و امان کے حالات تشویشناک ہوچکے ہیں۔ ان حالات سے صوبائی حکومت کو بھی آگاہ کیا گیا ہے مگر کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔تاجروں کی جانب سے جس قسم کی صورتحال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے یہ صورتحال پریشان کن بھی ہے اور عوامی طور پر صورتحال کی حقیقی نشاندہی کا بھی حصہ ہے جو صوبائی حکومت اور امن وامان برقرار رکھنے اور عوام کو تحفظ دینے کی ذمہ دار اداروں کی کارکردگی و ناکامی کاواضح ثبوت ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ اور عملی اقدامات صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے توقع کی جانی چاہئے کہ اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات میں مزید تاخیر نہیں ہو گی اور عوام و تاجروں کے تحفظ کے لئے تسلی بخش اقدامات کئے جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ