سلامتی پالیسی کا غیر روایتی پہلو ، لاحق خدشات

پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی میں اگرچہ مخصوص جغرافیائی اسٹریٹجک صورت حال کے تناظر میں روایتی سکیورٹی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے لیکن کے اس ساتھ ساتھ سکیورٹی کے غیر روایتی پہلوؤں کو یقینی بنانے پر بھی بہت زور دیا گیا ہے، جنہیں عام طور پر انسانی تحفظ کہا جاتا ہے، انسانی تحفظ کے ناگزیر عوامل میں انفرادی، کمیونٹی، سیاسی، غذائی، صحت، معاشی اور ماحولیات کا تحفظ شامل ہیں، اگرچہ ان میں سے ہر ایک عنصر عوام کی فلاح وبہبود کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے تاہم غذائی تحفظ کا قومی سلامتی کی غیر روایتی جہت کے طور پر عمل دخل زیادہ ہے، کیونکہ اس عنصر کی غیر موجودگی میں لوگ ہائبر ڈ وار یا مذموم پروپیگنڈا مہم چلانے والوںکی طرف استحصال کا شکار ہوں گے۔
دیکھا جائے تو غذائی تحفظ کے لئے جو عوامل ناگزیر ہیں ان میں مجموعی اور متوقع آبادی، پانی کی دستیابی، مناسب آب و ہوا، قابل کاشت اراضی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور بجلی کی فراہمی شامل ہیں۔ پالیسی کے دائرہ کار میں کسانوں کے لئے تعلیم، آگاہی اور مراعات، کھیت سے منڈی تک رسائی کے لئے سڑکیں اور اجناس کو ذخیرہ کرنے سے متعلق مطلوبہ بنیادی ڈھانچے اور مصنوعات یا اجناس کی مناسب قیمت کی ادائیگی اور اس پورے عمل کے بہتر نظم و نسق کے علاوہ تحقیق اور ترقی کے عمل میں نمایاں کوششیں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
پاکستان، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچواں بڑا ملک اور بنیادی طور پر زراعت پر مبنی معاشرہ ہے، بدقسمتی سے ملک کو اس وقت بعض وجوہات کے باعث غذائی تحفظ کے حوالے سے سنگین خدشات لاحق ہیں، گزشتہ 20 سال سے ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح دو فیصد سے زائد ہے اور یہ 22 کروڑ تک پہنچ گئی ہے، پھر پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے،کئی جائزہ رپورٹوں میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان کو سال2025 ء تک شدید آبی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ یہ 2040ء میںجنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ آبی قلت کا شکار ملک ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں ناقص آبی انتظام، موسمیاتی تبدیلی اور انتہائی شدید موسمی حالات کی وجہ سے تقریباً تمام نقد آور فصلوں کی پیداوار پر بھی منفی اثر پڑا ہے، اگرچہ جدید طریقوں سے کاشت کاری کے عمل کو بہتر بنانے ، اچھے بیجوں کی تیاری اور وسائل کے انتظام کے حوالے سے کوششیں کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ارزاں نرخوں پر غذائی ضرورت کو یقینی بنانے کے لئے ابھی بھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
پڑوسی ملک افغانستان میں تقریباً چار دہائیوں پر محیط جنگوں اور تنازعات نے بھی پاکستان کے وسائل خصوصاً زرعی محاصل کو نقصان پہنچایا ہے، جن کی سمگلنگ اور غیر قانونی راستوں کے ذریعے نقل و حمل کا سلسلہ جاری ہے، ملک میں آبادی کی شرح میں اضافے اور سمگلنگ کے مجموعی اثر سے غذائی مصنوعات کی طلب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، چنانچہ اس صورت حال میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں ا ور غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں بھی مزید اضافہ ہوا ہے۔ روس اور یوکرین کی جاری جنگ نے پوری دنیا میں خوراک کی رسد کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ غذائی اشیاء کی رسد اور طلب میں بڑھتے ہوئے فرق کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو باقاعدگی سے گندم ، چینی، زیتون کا تیل ، چائے اور مختلف اقسام کی دالیں درآمد کرنا پڑ رہی ہیں، جو دو حوالوں سے غذائی عدم تحفظ کا اہم سبب ہے۔
پہلا یہ کہ پاکستان کو پہلے ہی قلیل غیر ملکی کرنسی کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے، اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوتا ہے، جو تشویشناک سطح پر ہے۔ دوسرا یہ کہ اس خلا کو پر کرنے میں ناکامی جو انتہائی غربت کا باعث بن سکتی ہے، اس طرح آبادی کو استحصال کا شکار بناتی ہے۔ چنانچہ اس موضوع کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز ( سی اے ایس ایس )نے حال ہی میں ”پاکستان کے لیے غذائی تحفظ” کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ موضوع کے مختصر تعارف کے بعد، میں نے چار سیدھے سوالات کیے سی اے ایس ایس بطور تھنک ٹینک ا ن کے جوابات کی تلاش کر رہا ہے ، سوال یہ ہیں، مسئلہ کیا ہے، ذمہ دار کون ہے، آنے والے بحران کو کم کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے اور پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے راستہ کیا ہے؟
معزز مقررین میں سابق وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ اور قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سید فخر امام شامل تھے، چونکہ فخر امام خود بھی ایک کاشت کار ہیں اور زراعت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے انہیں کلیدی خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ دوسرے مقررڈاکٹر عابد قیوم سلیری، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی، اسلام آباد اور پرائم منسٹر ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان پر قومی رابطہ کمیٹی کے کنوینئر تھے۔ان مقررین نے غذائی تحفظ کی سنگین صورت حال اور معاشرے کی سماجی ترقی ،قومی سلامتی پر اس کے اثرات کے بارے میں اہم آگاہی فراہم کی ۔ انہوں نے درپیش مشکلات، کوتاہیوں اور زراعت کے شعبے کے اندر اس پر قابو پانے کے طریقوں سے متعلق اظہار خیال کیا جب کہ دو دیگر مقررین، جنہیں آبی انتظام کی اہمیت اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں اظہار خیال کے لئے مدعو کیا گیا تھا، ان میں سابق سیکرٹری پانی و بجلی اشفاق محمود نے پاکستان کے غذائی تحفظ کے لئے پانی کی دستیابی کی اہمیت کے بارے میں جائزہ پیش کیا جب کہ چیئرمین بورڈ آف گورنرز سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ایمبیسیڈر شفقت کاکا خیل نے موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ پر اس کے اثرات کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ اختتامی خطاب میں میرا یہ مؤقف تھاکہ بظاہر ہمارے پالیسی سازوں کو غذائی عدم تحفظ جیسے مسائل کا ادراک ہے لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کے حل کے لئے سب سے اہم عوامل، جن میں پانی، موسمیات اور زراعت شامل ہیں، انہیں ابھی تک ہمارے قومی اہداف کی ترجیحی فہرست میں مناسب جگہ نہ مل سکی۔
(بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت