سوالات نہیں جواب تلاش کیجئے

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی سویلین ڈھانچے پر اس حد تک چھائی ہوئی ہے کہ اس کے پورے وجود پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ یہ اس لئے ہوا کیونکہ سیاستدان شفاف نہیں رہے اور انہوں نے سمجھوتہ کرنا شروع کردیا ہے اور سمجھوتے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔بدقسمتی سے آج تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہیں، اگر وہ(اسٹیبلشمنٹ)ان کی جماعت کی حمایت کریں تو وہ انہیں قابل قبول ہے۔پاکستان کی موجودہ صورتحال مایوس کن ہے، یہ پہلے بھی ایسی ہی تھی لیکن فرق یہ تھا کہ اس وقت کچھ امیدیں باقی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار صرف سیاستدانوں کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، پاکستان ایک منظم تباہی سے گزر رہا ہے اور اسے کوئی ایک شخص ٹھیک نہیں کر سکتا، ہم مسیحا کا انتظار نہیں کر سکتے، ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اسے ٹھیک کریں۔سابق چیئرمین سینٹ اس قدر صاف گوشخصیت ہیں کہ دوسری جماعتیں بھی کسی اعلیٰ عہدے کے لئے ان کی حمایت کی پیشکش کرتی ہیںمگر خود ان کی جماعت تیار نہیں ہوتی شاید اس کے پس پردہ بھی سمجھوتہ ہی ہوگاالبتہ وہ تمام ترخیالات زریں کھنے کے باوجود پارلیمان میں ووٹ بہرحال پارٹی کی امانت سمجھ کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس تکلیف کابھی اظہار کرتے ہیں جو اصولوں کے برخلاف پارٹی کی ہدایت پر ووٹ دینے سے ان کو ہوتی ہے ملکی سیاست اسطرح کے قول و فعل کے باعث معمہ بن چکا ہے اور سیاستدانوں کے اس طرز عمل کے باعث ہر جگہ اور ہر وقت اسٹیبلشمنٹ کے اونٹ کو منہ مارنے کا موقع ملتا ہے ملکی سیاست میں نوے کی دہائی کے سیاستدان جب لڑ لڑ کے تھک گئے اور ان کو میثاق جمہوریت کا ہوش آیاتو اسٹیبلشمنٹ نے نیا گھوڑا پوری طرح تیار کرکے میدان میں لایا مگر جلد ہی ان کو احساس ہواکہ ان کا تراشا ہو ا بت وہ صنم نہیں جس کی پوری پانچ سال پوجا کی جا سکے تو پینترا بدلا اورمعتوب و مغضوب گردانی گئی شخصیت سے روابط بحال کئے گئے دیکھا جائے تو اصل مسئلہ اسٹیبلشمنٹ نہیں کیونکہ وہ توجوکرتی آئی ہے وہی اب بھی کر رہی ہے اصل مسئلہ سیاستدانوں کی جانب سے دانہ چگنا اور کندھا پیش کرکے اقتدار میں آنا ہے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے اور اس مرتبہ توعوام کوواضح طور پر اس امر کا اندازہ بلکہ ادراک ہے کہ نتیجہ نوشتہ دیوار ہے حالات نے کوئی ڈرامائی کروٹ نہ لی تونوشتہ دیوار واضح ہے بجائے اس کے کہ سیاستدان اس کی مزاحمت کرنے کے وہ اقتدار میں حصہ کی لڑائی لڑتے دکھائی دے رہے ہیں ایسے میں انتخابات کاانعقاد ایک فضول کی مشق ہو گی سیاستدان سٹیج پر تو اچھی اچھی باتیں کر جاتے ہیں مگر جب تک عملی طور پر وہ اس امر پر اتفاق نہیں کرتے کہ نہ کوئی دانہ چگے گا نہ مفاہمت ہو گی اور نہ ہی کسی ایسے ذریعے سے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کی سعی ہو گی جس کی جمہوریت میںگنجائش نہ ہو جب تک ملک میں مرکزی و صوبائی سطح پر سیاسی جماعتیں اورقائدین اس امر پراتفاق نہیں کرتے ملک میں ہونے والے انتخابات سیاسی و حکومتی سطح پرتبدیلی لانے اور بہتری کاباعث نہیں ہوں گے ۔ اس وقت عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاستدان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے جتنے بھی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہیں ان کی کوشش یہی نظر آتی ہے کہ وہ اپنی کامیابی اور حصول اقتدار کا راستہ صاف کردیں اور بلا رکاوٹ ان کا حصول اقتداریقینی ہو ۔ جب تک سیاستدان عملی طور پر اور متفقہ اندازمیں تمام ترسیاسی مخالفین رکھنے کے باوجود جمہوری سیاست اور عوام کے بل بوتے پرحصول اقتدار کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے سہارے تلاش کرتے رہیں گے کسی نہ کسی سٹیج سے اس طرح کے خیالات کے اظہار کا موقع باقی رہے گا۔ سیاستدان بالااتفاق ہی اس گھن چکر سے نکل سکتے ہیں دوسری کوئی صورت نظر نہیں آتی۔سیاسی زعماء کے لئے اس طرح کے خیالات کے اظہار سے زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ سب سے پہلے خود اس طرح کے عمل کا حصہ نہ بننے کا عزم صمیم کریں اور اس پر اتفاق پیدا کیا جائے کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی ماضی کی غلطیوں سے ہر ہوشمندسبق سیکھتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر سیاستدان اس وصف سے عارینظرآتے ہیں جب تک مفادات کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر سیاست ہوتی رہے گی یکے بعد دیگرے اس طرح کے حالات سے بھی پالا پڑے گا اورملک میں سیاسی استحکام و سول بالادستی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا عوام واضح تبدیلی کے خواہاں ہیں اور وہ اس طرح کی غلطی دہرانے کے لئے بالکل بھی آمادہ نہیں مگر چوائس ہونے کے باوجود وہ ایسے افراد کو ڈھونڈ نہیں پاتے جس پر پوری طرح بھروسہ کیا جاسکے جو ان کے بھروسے و اعتماد کواپنے مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے اور ہر قیمت پر اپنے منتخب کرنے والے سے مخلص رہے جس دن ایسا ہوا وہ دن ملکی سیاست اور طرز حکمرانی میں تبدیلی کا پہلا دن ہوگا۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس