2 180

سولہ وزارتوں کو ریڈ لیٹر

اپنی ٹیم میں کارکردگی نہ دکھانے پر کابینہ سے فارغ کرنے میں تامل کا مظاہرہ کرنے والے وزیراعظم عمران خان کا ناقص کارکردگی پر سولہ وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری کرنے کا اقدام ٹیم کی کارکردگی کے تسلسل سے جائزے اور خود احتسابی کا عمل ہے۔ قبل ازیں دسمبر2019 میں بھی وزیراعظم کے دفتر سے وزارتوں کو تنبیہی خط جاری کیا گیا تھا۔ وزیراعظم آفس کے مطابق ریڈ لیٹر کا اجراء وزارتوں کی جانب سے کابینہ کے پانچ فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے پر کیا گیا، وزیراعظم نے کابینہ کے پانچ فیصلوں پر مقررہ وقت کے اندر عملدرآمد میں ناکامی پر سخت تنبیہ کیساتھ اکیس دنوں میں عملدرآمد یقینی بنا کر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔ علاوہ ازیں بھی وزیراعظم مختلف ہدایات دے چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اس لحاظ سے بہرحال اپنے پیشروئوں سے مختلف وزیراعظم ہیں کہ جو اپنی ٹیم کی کارکردگی کا غیرروایتی انداز سے جائزہ لیتے ہیں اور کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے پر بغیر کسی سیاسی مصلحت کے کابینہ سے چھٹی کرنے میں نہیں ہچکچاتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وفاقی کابینہ کے اراکین کیلئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں کہ وہ وزیراعظم کے اعتماد پر پورا اُتریں اور اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنائیں۔ وزیراعظم کے یہ اقدامات جہاں تحسین کے حامل اقدامات ہیں وہاں وزیراعظم بعض ایسے عناصر کیخلاف کارروائی میں اس تحرک کا مظاہرہ نہیں کرتے جو ان کا شیوہ ہے، خاص طور پر چینی وگندم سکینڈل اورنجی بجلی گھروں سے معاہدوں میں شامل اور ذمہ دار افراد کیخلاف کارروائی سے گریز وتاخیر اچھے تاثرات کا حامل رویہ نہیں۔ وزیراعظم بلا امتیاز اور مصلحتوں سے بالا تر ہو کر ہی اقدامات کے ذریعے اپنی ٹیم کی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں اور بلاتخصیص کارروائی ہی اس امر کی ضمانت ہوگی کہ اراکین کابینہ سمیت کوئی بھی احتساب سے بالا تر نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جن وزارتوں کو ریڈ لیٹر کا اجراء کیا گیا ہے اور جواب طلبی کی گئی ہے آیا وہ مقررہ دنوں کے اندر کا بینہ کے فیصلوں پر عملدرآمد میں کامیابی حاصل کرتے ہیں یا پھر کپتان ان کیخلاف کارروائی کی ضرورت پوری کرتے ہیں، بہرحال جواب طلبی وبامعنی احتساب کا عمل احسن قدم ہے جسے جاری رکھنے سے اصلاح احوال اور کارکردگی میں بہتری ممکن ہے۔
اصل بات زبان پر آہی گئی
وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی اور تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی صوبوں سے اختیارات لینے اور صوبائی خود مختاری کی وکالت کیساتھ این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کی تجویز پیش کرنے سے اصل بات زبان پر آہی گئی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ کورونا وائرس کی خطرناکیوں کے باوجود بھی اس وقت نہ صرف زیر غور ہے بلکہ اسے ممکن بنانے کی جو منصوبہ بندی ہورہی ہے خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں مصلحت ومجبوری کا شکار ہیں لیکن صوبہ سندھ سے اس حوالے سے توانا آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ فواد چوہدری نے واضح طور پر اس بیانیہ کی وکالت کی ہے جو اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے یا کم ازکم صوبوں کے مالی وسائل میں کمی کے حق میں ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تحریک انصاف قبل ازیں صوبائی خود مختاری جسے اگر معاشی خود مختاری اور وسائل میں حصہ کا نام دیا جائے تو زیادہ بہتر اسلئے ہوگا کہ خود فواد چوہدری اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ اختیارات نہیں مالیات مسئلہ ہیں۔ صوبوں کو مالی خود مختاری اور وسائل میں صوبوں کے حصے کا تعین متفقہ طور پر طے شدہ ہے اور قبل ازیں کی حکومتیں اس سے مطمئن اور عوام خوش تھے۔ پہلے ادوار میں صوبوں کی مالی خود مختاری اور این ایف سی ایوارڈ کوئی مسئلہ نہ تھا اب اس کا موجودہ حکومت کو کھٹکنا تعجب کا باعث امر ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں صوبوں میں بہتری نہ آنے کی بات سے اختلاف نہیں لیکن تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور خیبرپختونخوا میں تو تحریک انصاف کی یہ دوسری حکومت ہے، بہتری تو ان محکموں کے وفاق کے پاس ہوتے وقت بھی نہ تھی۔ تحریک انصاف اگر اپنی حکومت کے حامل صوبوں میں صحت اور تعلیم کے علاوہ بھی جو دیگر وزارتیں اور محکمے صوبوں کے ذمے آگئی ہیں ان کے اختیارات ووسائل اور پالیسی سازی کے معاملات کی کلی طور پر صوبوں کی منتقلی کیساتھ بہتری لانے کی کوشش کرے، پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں لا کر عملی اقدامات کرے تو معاملات خودبخود بہتر ہو جائیں گے لیکن اس اعتراض کی آڑ میں صوبوں کے عوام کے حصے کی کٹوتی کی اجازت نہیں دی جا سکتی اس سلسلے میں جو بھی سیاسی جماعت آئین میں ترمیم سے اتفاق کرے ان کا فیصلہ اپنی قبر خود کھودنے کے مترادف ہوگا۔
اپنے ہی پیاروں کے قتل کے بڑھتے واقعات
خیبر پختونخوا میں رمضان المبارک کے دوران لوگوں کا اپنے جذبات پر قابو میں نہ رکھ سکنے کی روایت تو چلی آرہی ہے، رمضان المبارک میں جھگڑے بھی معمولات کا حصہ رہے ہیں لیکن سحری میں گرم کھانا پیش نہ کرنے، شربت میں چینی زیادہ ڈالنے اور شور کرنے پر اپنے ہی گھر کی معصوم کلی کو قتل کرنے، شوہر کا بیوی کو قتل کرنا اور بھائی کا اپنے بھائی اور بہن کو قتل کرنے کے واقعات معمولات سے ہٹ کر ہیں، جن کی معاشی ونفسیاتی وجوہات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لاک ڈائون کے باعث نفسیاتی دبائو میں مزید اضافہ بلکہ نفسیاتی دبائو کا شکار بنا دینے کا بڑا عمل غربت اور وسائل سے محرومی ہے جس کے باعث اس قسم کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کو جہاں نفسیاتی علاج ومدد کی ضرورت ہے اس سے کہیں بڑھ کر ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے میں حکومت اور معاشرہ دونوں کو اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات