سویلین اداروں کی نااہلی کے باعث سیاست میں فوج کا کردار برقرار رہے گا، کاکڑ

ویب ڈیسک:نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مستقبل قریب میں ملکی سیاست میں فوج کا کردار برقرار رہے گا۔ ترک میڈیا ٹی آر ٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہم انتخابی عمل میں داخل ہورہے ہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ انتخابی عمل نسبتاً غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوگا جس میں کسی سیاسی جماعت کے حق میں کسی ادارے کی مداخلت نہیں ہوگی۔ انتخابات میں عمران خان کی عدم شمولیت سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پرامن احتجاج تمام سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن پرتشدد مظاہروں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نگران وزیراعظم نے حلقہ بندیوں کے متنازع ہونے کے امکان پر کہا کہ مجھے اس بارے میں زیادہ تشویش نہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے، کوئی سیاسی جماعت حلقہ بندیوں کو متنازع سمجھتی ہے تو اس کے لیے درست فورم قومی اسمبلی تھا جہاں وہ قانون تبدیل کرسکتے تھے، مگر کسی نے ایسا نہ کیا اور اب ہم جس مقام پر آکر کھڑے ہیں وہاں ہمیں آئین کی پاسداری کرنی ہوگی۔ عمران خان حکومت گرانے میں امریکی سازش کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ سازشی نظریات ہیں اور خود عمران خان اس الزام سے پیچھے ہٹ گئے تھے،تو کوئی اور اس سازش پر کیسے یقین کرے گا، جہاں تک نگران حکومت کا تعلق ہے تو ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ امریکا سمیت کوئی بھی ملک ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے، عمران خان حکومت کو آئینی طریقے سے ہٹایا گیا تھا، ان کے خلاف کوئی فوجی بغاوت نہیں ہوئی۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ سول حکومت اور فوج کے تعلقات میں عدم توازن کو میں خالص گورننس سٹرکچر کے تناظر میں دیکھتا ہوں، پاکستان میں تمام سیاسی قیادت نے اپنے مخصوص مفادات اور سیاسی طاقت کے لئے فوج سے تعلقات قائم کئے، جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار فوج کو ٹھہراتے ہیں اور اس کی وجہ سول فوجی تعلقات میں عدم توازن کو قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ سول فوجی تعلقات میں عدم توازن موجود ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سویلین اداروں کی گزشتہ 4 دہائیوں میں کارکردگی خراب رہی ہے، چاہے وہ شعبہ تعلیمی ہو، صحت ہو، قدرتی آفات سے نمٹنا ہو یا ٹیکس جمع کرنا ہو، خراب حکمرانی کے چیلنجز کے نتیجے میں تنظیمی صلاحیت کا حامل واحد ادارہ فوج ہے لہٰذا حکومت کو روز مرہ کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے فوج پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور فوج کی مدد لینی پڑتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہمیں سول اداروں کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ فوج ان حکومتی امور میں مداخلت نہ کرے جس میں ان کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، اس کا یہ حل نہیں کہ فوج کی تنظیمی طاقت کو کمزور کردیا جائے۔ اینکر کے سوال کہ آیا ڈسپلنڈ ادارہ ہونے کی حیثیت سے مستقبل قریب میں پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار بدستور برقرار رہے گا ؟ اس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ عملا، حقیقت پسندانہ طور پر اور ایمانداری پر مبنی جواب ہاں میں ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ پہلی بار کسی بھی وزیرِ اعظم کو آئینی طریقے سے اقتدار سے الگ کیا گیا، آئین میں حکومت کی تشکیل اور ہٹائے جانے کا طریقہ درج ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ امریکا اور اتحادی افواج 20 سال افغانستان میں رہے، اتحادی ممالک افغانستان میں 2 کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود مرکزی اتھارٹی قائم نہ کر سکے، افغانستان میں اتحادی افواج کی موجودگی میں بھی 15 سال تک پاکستان سرحد پار حملوں کا شکار رہا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سرحد پار حملوں کو روکنے کے لئے کئی سیکیورٹی اقدامات کئے ہیں، افغانستان میں کوئی ایک مرکزی اتھارٹی قائم نہیں بلکہ ایک متحارب گروپ اقتدار میں ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں استحکام دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں، افغان عبوری حکومت اپنی سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

مزید پڑھیں:  ‏شانگلہ، چینی باشندوں کی گاڑی پر دہشتگرد حملہ، 6 افراد جاں بحق