5 313

سینیٹ ،اُمیدواروں کا ماوراء آئین انتخاب

بعض معاشرے اپنی اقدار کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار ان معاشروں میں نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ وہ تمام معاشرتی برائیاں ہمارے لئے نان ایشو بنتی جا رہی ہیں جنہیں مہذب معاشروں میں انتہائی برا سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹ’ دھوکہ دہی’ بدعنوانی ہمارے نزدیک کوئی بڑی برائی نہیں رہی ہے’ بنیادی ہدف کامیابی ہے بھلے اس کیلئے جھوٹ’دھوکہ دہی’ بدعنوانی سمیت کوئی بھی مذموم رویہ کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ کیا اہل سیاست اور کیا عوام ہر طرف ایک جیسا ماحول ہے۔ قرآن کریم میں فرمان ہے کہ جس طرح کی قوم ہوتی ہے اس پر ویسے ہی حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔ جمہوری نظام میں چونکہ حکمران عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں اس لیے منتخب کردہ افراد بلاشک و شبہ ان اچھائیوں یا برائیوں کے نمائندہ ہوتے ہیں جو عوام میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ بادشاہت اور خلافت جیسے نظام ہائے حکومت میں بھی حکمران زیادہ عرصہ برسراقتدار نہیں رہ سکتا اگر وہ رعایا کے اخلاقیات کی نمائندگی نہ کرتا ہو چنانچہ بغاوتیں برپا ہوتی ہیں اور اشرافیہ حکمران کو تخت سے ہٹانے کیلئے سرگرم ہوجاتی ہے۔ آج کے کالم میں اس تہمید کا مقصد حالیہ سیاست کے دو اہم معاملات پر بات کرنی ہے۔ اول اس فکری افلاس کی جانب توجہ دلانی ہے جس کا شکار سیاسی جماعتیں’ عوام’ اہل علم’ اہل قلم اور وہ تمام ادارے ہیں جنہیں ملک کے سیاسی و جمہوری نظام کو مضبوط کرنا اور جاری وساری رکھنا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم ذمہ داری تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ اہل علم واہل قلم میں بھی اس ضمن میں کوئی بے چینی دکھائی نہیں دی ہے۔ اہل صحافت فقط اس خبر کی تلاش میں سرگرداں اور بے چین تھے کہ کس سیاسی جماعت نے کون سے اُمیدواروں کو سینیٹ کی نشستوں کیلئے فائنل کر لیا ہے۔ کسی نے اس بارے میں نہ لکھا اور نہ ہی یہ پوچھنے کی زحمت گوارا کی کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے آئین میں سینیٹ انتخابات کیلئے اپنے اُمیدواروں کو منتخب کرنے کیلئے جو قاعدہ طے کیا ہے وہ کیا ہے اور کیا یہ کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اس کے مطابق اپنے اُمیدواروںکو فائنل کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان جس کے کاندھوں پر وطن عزیز کے سیاسی نظام کو چلانے کی بھاری ذمہ داری آئین پاکستان نے ڈالی ہے وہ اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہر جماعت کا آئین موجود ہے۔ الیکشن ایکٹ2017 کے سیکشن (2)201 کے مطابق ہر سیاسی جماعت اپنا آئین الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرانے کی پابند ہے اور اسی سیکشن201 کے ذیلی سیکشن 201(f)iii میں لکھا ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے آئین میں واضح کریں گی کہ پبلک آفس اور قانون ساز مجالس کیلئے اُمیدواروں کا انتخاب کس طرح ہوگا۔ کیا الیکشن کمیشن نے کسی سیاسی جماعت سے اپنے آئینی طریقہ کار کی پابندی کا پوچھا ہے اور کیا انہیں متنبہ کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ آئین سے ماوراء اُمیدواروں کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی اپنی مانیٹرنگ کہاں ہے’ وہ اس اہم موقع پر بروئے کار کیوں نہیں ا رہی؟ پاکستان کے سیاسی نظام کو توانا بنانے میں الیکشن کمیشن کا اہم کردار ہو سکتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ سیاسی نظام کا محافظ خواب غفلت میں ہے۔ اس کی غفلت بانجھ نہیں ہے’ اس کے طفلان اور دختران سیاسی نظام کی خرابیوں اور برائیوں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ریاست کے دیگر ادارے خاص طور پر عدالت عظمیٰ بھی اس پر خاموش ہے حالانکہ سپریم کورٹ کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار موجود ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں بشمول میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی اور اپنے آپ کو جمہوریت کی نام نہاد علمبردار کہلوانے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اب تک بضد ہیں کہ وہ سینیٹ الیکشن کو کھلا الیکشن نہیں بننے دیں گی اور اس ضمن میں ہونے والی حکومتی کوششوں کی مخالفت کریں گی۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے میثاق جمہوریت میں سینیٹ الیکشن کے کھلے انعقاد کو تسلیم کیا ہوا ہے لیکن اب وہ تحریک انصاف کی حکومت کو اس معاملے میں سپورٹ نہیں کر رہی ہیں۔ یہ ان کے رویے کا تضاد بھی ہے اور اس بات کا عکاس بھی ہے کہ سیاست میں ہیرا پھیری ان کے نزدیک ناپسندیدہ نہیں ہے۔ اگر یہ جماعتیں ہیرا پھیری نہیں کرنا چاہتیں تو انہیں گورنمنٹ کے آئینی ترمیمی بل کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ ہمیشہ کیلئے سینیٹ الیکشن کے موقع پر خرید و فروخت کے کلچر سے چھٹکارا مل سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے البتہ مخلصانہ کوشش کی ہے۔ اس کوشش کی آخری اُمید اب پاکستان کی عدالت عظمیٰ ہے جسے آئین پاکستان یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ آئین کی کسی شق کی آئین کی روح کے مطابق تشریح کرے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ اخلاقی زوال کے شکار پاکستانی معاشرے کے مزید انحطاط کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان اپنی پوری طاقت کیساتھ بروئے کار آئے گی اور2021 کے سینیٹ انتخابات کے ماتھے پر ماضی کی طرح بدنامی کا داغ نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس