شاخیں اُلجھ رہی ہیں سبھی اپنے آپ سے

یہ مانا کہ ہماے ہاں ایک طویل عرصہ سے ہوائیں ہی یہ فیصلہ کرتی چلی آرہی ہیں کہ کب روشنی کرنی ہے اور کس کس دئیے نے جلنا ہے۔ مگر اب تو ہوا نے درخت کا بھی بّرا حال کر دیا ہے اور اس کی تما م شاخیں ایک دوسرے میں اُلجھی ہوئی ہیں ۔نہ سایہ رہتا ہے اور نہ ہریالی نظر آتی ہے ۔ نفرت انگیزی اور انتہا پسندی اس قدر عام ہے کہ اس کے سیاہ سائے ہر طرف چھانے لگے ہیں بلکہ مسلسل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ قوم کس طرف جارہی ہے اور اس کی منزل کیا ہے۔ سیاسی ،سماجی اور مُلکی معاملات تشویشناک حد تک بگڑتے جا رہے ہیںاور اس میں سب ہی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کسی بھی شعبہ اور طبقہ کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ کوئی روک ٹوک نہیں اور ہر ایک اس قدر خود مختار ہو چکا ہے کہ معقولیت بھی باقی نہیں رہی۔ گراوٹ ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے ۔ ہر حلقہ میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور خطرہ ہے کہ یہ صورتحال مزیدخراب ہو ئی تو کیا بنے گا۔ بدکلامی اور ہاتھا پائی تو روز کا معمول ہے ۔ اس طرح کا رویہ کسی طور پہ بھی مُلک و قوم کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔ پوری قوم ابھی تک اس منزل کی تلاش میں سرگرداں ہے کہ جس کی نشاندہی مُلک کے معرضِ وجود آنے پر کی گئی تھی۔ قافلہ سالار یہی کہتے رہے کہ چلے چلو وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ ہمارے لیے جو گھر بنایا گیا ،اسے5 7سال ہو گئے مگراب تک اس کی دیواروں پہ اُداسی بال کھولے سو رہی ہے۔
ہمیشہ بڑوں کی گفتگو اور ان کے افعال اپنی نسل کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ سب کا مشاہدہ ہے کہ بچے اپنے گھر کے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ سیاسی رہنما اپنی قوم کے لیے ایک مثال ہوتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں غیر جمہوری قوتوں کا غلبہ رہا اور اس کے اثرات سے ایک ایسی قیادت آگے آتی رہی جو پوری قوم کے لیے قابل تقلید مثال بننے کی بجائے ایک متنازع انداز اور نامناسب رویہ اختیار کرتی رہی ،جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ کسی سیاسی جماعت کا نظریہ نہیں اور سب رہنما ایک دوسرے کو نہ صرف چور ڈاکو کہہ کر مخاطب کرتے ہیں بلکہ ذاتی زندگی اور خاندان کے ہر فرد کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ہندوستان کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر نے برسوں پہلے کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ یہ خان صاحب کے فن کی بڑائی اور لتا جی کی اُن سے عقیدت کا اظہار تھا۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے ان سیاسی رہنماؤ ں کے گلے میں کون بولتا ہے۔ پہلے قرانی آیات سے ابتدا کرتے ہیں اور اللہ کی مدد مانگ کراپنے مخالفین پر تبّرابھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی بصیرت رکھنے والے ایسے رہنما ہوئے ہیں جو نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر بحث مباحثہ کرتے، اپنے سیاسی خیالات کا اظہارکرتے، جماعت کے کارکنوں کی تربیت ہوتی، عوام اُن کی مدلل تقریروں سے اپنی رائے قائم کرتے، کبھی چپقلش ہو جاتی تو شائستگی برقرار رہتی اور نظریہ کے پس منظر میں ایک حد تک بات کی جاتی۔ اب تو دن بہ دن لہجہ خراب ہوتا جارہا ہے اور ہر مخالف کو ایک مخصوص گالی سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ یہ سب مُلک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے آرزو مند اور حصول ِاقتدار کے لیے کوشاں ہیں مگر ایک دوسرے کو گالی دینے کے علاوہ بات ہی نہیں کرتے۔ اب ان کے حامیوں کا بھی یہی طرزِ تکلم ہے کہ کہنے کو کچھ نہیں تو اُول جلول باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی دوست، عزیز اور بزرگ سے اپنے تعلق کی پرواہ کیے بغیر گستاخی سے پیش آتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان رہنماؤں کی حمایت میں بہت سے مذہبی سکالر بھی اس غیر ضروری بحث میں شامل ہو کراپنامقام فراموش کر بیٹھے ہیںجبکہ قوم کو اس ناشائستگی سے محفوظ رکھنا ان کی اصل ذمہ داری ہے۔ قوم مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہے ،بیرونی امداد اور قرضوں کے ذریعے مُلک مصنوعی تنفس پہ زندہ ہے اور مسائل جوں کے توں ہیں۔ایسے میں ہمارے یہ سیاسی رہنما اپنی علمی کمتری، اخلاقیات کے فقدان اور دروغ گوئی پر مبنی احتجاجی جلسوں میں مصروف ہیں جہاں بلند و بانگ جھوٹے دعوئوں کے انبار لگانے،غلط اعدادوشمار پیش کرنے اور گالم گلوچ سے اپنے حامیوں کو متاثر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خالی الذہن حمایتی محض مزے لوٹنے جاتے ہیں مگر ذہنوں میں نفرت کا بیج بوئے واپس لوٹتے ہیں۔ ہمیں قابل احترام اور ذمہ دار عہدوں پر فائز شخصیات سے بہتر رویوں کی کہیں زیادہ توقع ہے۔ دکھ یہ ہے کہ عام دفاتر اور دیگر جگہوں کو چھوڑکر اب تو عدالتوں میں بھی توڑ پھوڑ ہو رہی ہے۔ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات کے ذریعے دانشور ملکی مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں۔لیکن یہاں بھی وہی کچھ لکھا اور بولا جارہا ہے جس کا سبق پڑھا دیا جاتا ہے۔کسی کا احترام کیے بغیر ایک لایعنی بحث مباحثہ جاری رہتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ایک مہذب معاشرہ کے تمام اصول ضابطے ختم ہو گئے یا ختم کر دئیے گئے ہیں؟ کیا اس مُلک میں ہم صرف اُلجھنے کو رہ گئے ہیں ؟ اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے، ہمارے سیاسی اکابرین ،اہل فکر اور دانشوروں کو حالات کا جائزہ لینا ہوگااور قوم کے حق میں بہتراقدامات کرنے ہوں گے ۔ورنہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟