شادی بیاہ او ر رسومات

ارسطو نے بہت پہلے کہا تھا کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ۔ وہ نہ تو اکیلے زندگی بسر کرسکتا ہے اور نہ اپنی تمام ضروریات زندگی خودپوری کر سکتا ہے ۔ گویا ہرانسان اپنی ضروریات میں دوسرے انسان سے منسلک ہے ۔ اسی وجہ سے معاشرے کی تشکیل ہوئی جس کی بنیاد "کچھ لو کچھ دو” کے اصول پر رکھی گئی ہے ۔ ہمارا دین اسلام بھی اجتماعی زندگی گزارنے پر زور دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کا آغاز دیگر افراد کے ساتھ بہتر اور خوشگوار تعلقات استوار کرنے سے ہی ہوتا ہے ۔ اس طرح ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں انسان بوقت ضرورت ایک دوسر یکے ساتھ تعاون کر سکے۔جہاں نسل انسانی کی بقا کے لئے ” زندگی کے اصول” سامنے آتے گئے وہاں مختلف قبائل اور کلچرز نے ایک دوسرے سے قریب ہونے اور انسانی نسل کو آگے بڑھانے کیلئے شادی کا وجود اپنایا. ازل سے ہی ہم سب شادی کو اپنی مذہبی اور ثقافتی رنگ میں بھگو کر اس ضرورت کو چلاتے آ رہے ہیں. اسی طرح ہمارے دین اسلام نے بھی اللہ تعالی کے حکم کو سنت نبویۖ کے ذریعے مسلمانوں کے لئے پیش کر دیا. شرعی حکم اور اسلام میں آسان شادی کی مثالیں حضور اکرمۖ کی ازدواجی زندگی اور حضرت فاطمہ کی مثالی نکاح سے صاف عیاں ہے. لیکن ہمارے ہاں رشتہ طے کرنے کے جو روایتی اقدار وروایات ہوا کرتی تھیں ، آہستہ آہستہ مٹتی جارہی ہیں ۔ کیونکہ اب ہم ترقی یافتہ ہو گئے ہیں ۔ ہم جدید دور کے تقاضوں سے اتنے مرعوب ہوگئے ہیں کہ اب ہمیں اپنے دین اسلام کے پیش کردہ وہی اقدار فرسودہ نظر آتی ہیں – شریعت کے مطابق پہلے حب لڑکی بالغ ہو جاتی تھی تو اس کا باپ مسجد میں اعلان کرواتا اور نکاح پڑھوا کر لڑکی کو باعزت طریقے سے رخصت کر دیا جاتا تھا ۔ اس طرح والدین اس اہم فرض سے سبکدوش ہو جاتے تھے ۔ جہیزبھی اسکو حسب استطاعت دیا جاتا کیونکہ اس وقت تصنع ، بناوٹ اور نمود و نمائش نے ہماری رگوں میں اتنی سرایت نہیں کی تھی جتنی کہ آج کل ہے بلکہ بزرگ کہتے ہیں کہ جس لڑکی کی شادی ہوتی ہر کوئی اپنے ساتھ تحفے ، کپڑے ، برتن وغیرہ لے جاتا اور اس طرح لڑکی کا سارا جہیز اکٹھا ہو جاتا ۔ لڑکی سے جہیز لینا انڈین کلچر کا حصہ ہے جسے ملکی اور مذہبی آزادی کے بعد بھی ہم ترک نہ کرسکے۔ جہاں تک بات حق مہر کی ہے تو وہ بھی شرعی اصولوں کے مطابق مقرر کیا جاتا تھا تاکہ بروقت ادا کیا جا سکے۔ ولیمے میں بھی حسب استطاعت خرچ کر کے سادگی کے اصول پر عمل کیا جاتا تھا ۔ لیکن آج صورت حال کچھ اور ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں رشتے طے کرنے کا معاملہ بہت ہی مشکل ہوتا جارہا ہے .حضرت امام ابو حنیفہ سے کسی نے شادی کرنے پر استفسار کیا جس پر امام صاحب نے کہا کہ شادی کرتے وقت لڑکی میں تین اوصاف دیکھنے چاہیے ۔ پہلی صفت یہ ہے کہ لڑکی حسب نسب سے خاندانی ہو ،دوسری صفت یہ کہ نماز پنجگانہ کی پابند ہو ، تیسری صفت یہ کہ حیثیت میں مرد سے کم ہویعنی اگر مرد کے گھر میں پوری روٹی کھاتی ہو تو وہی لڑکی اپنے گھر آدھی روٹی کھا رہی ہو. یعنی لڑکی کو مشکل وقت میں مرد کے گھر پوری روٹی نہ ملے تو آدھی پر گزارا کرسکے جسکی سیکھ اسے اپنے گھر میں ہوئی تھی. ان اوصاف کے بعد لمحہ بھر نکاح میں تاخیر نہ کرے ۔ سو شل سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 2 کروڑ نوجوان ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں۔ ہم اتنے مادہ پرست ہوگئے ہیں کہ اب رشتے بھی لالچ وطمع میں آکر ہی طے کرنے لگے ہیں ۔ ”گھر سے گھر تک” کی طرح ہر”معصومہ”باپ کے گھر کی دہلیز پرہی بوڑھی ہو جاتی ہے ۔ ہم خودتو اونچے طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ہوں گے لیکن پھر بھی اسی سفید پوش طبقہ میں رشتہ کرنے کے خواب دیکھتے ہیں ۔ تاکہ خاندان یا برادری میں ہماری ناک نہ کٹے بلکہ ہماراسر فخر سے اونچا ہو ۔ اگر لڑکی پسند کرنے جائیں تو اللہ تعالی کی اس پیدا کردہ مخلوق میں کوئی نہ کوئی نقص نکال کر ہی دم لیتے ہیں۔ بوڑھے ماں باپ کے کندھوں پر جوان بیٹیوں کی ڈھلتی عمر کا بوجھ اور اس مہنگائی کے دور میں مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے اٹھانے والی تکلیف واذیت کا اندازہ ہمیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک ہم خود اس صورت حال سے نہیں گزرتے ۔ ہمارے ارد گرد ہر بوڑھا باپ” الحمد للہ”کا ”مولوی ابوالبرکات ”دکھائی دیتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عمر کا مسئلہ بہت نازک پہلوکی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ جس گھر میں پانچ یا زائد لڑکیاں ہوں تو بجائے اس کے کہ عمرکی مطابقت کو دیکھا جائے سب سے چھوٹی بیٹی میں زیادہ دلچسپی لی جاتی ہے ۔ والدین بھی اس خواہش میں کہ سب سے پہلے بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہو اپنی چھوٹی بیٹی کی عمر بیتا دیتے ہیں ۔رشتہ ڈھونڈنے کے لیے جن حضرات نے خدمت خلق کی ذمہ داری اٹھائی ہے وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے درپے دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک کاروبار بنایا ہوا ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کے گھروالوں سے منہ مانگی رقم کا مطالبہ کرکے اپنی جیب تو گرم کرلیتے ہیں لیکن کل کو اگر کوئی اونچ نیچ ہو جائے یا بغیر کسی چھان بین کے رشتہ طے ہو جائے تو ذمہ داری قبول نہیں کرتے ۔ اصولا ان کی ذمہ داری بنتی بھی نہیں ہے ۔ چھان بین کروانا تو منکوحہ کے والدین کا کام ہے ۔ رسم و رواج یکساں نہ ہونے کی وجہ سے رشتہ توڑ دینے کا ٹرینڈ بن گیا ہے ۔ لڑکے یا لڑکی کی زندگی سے کھیلنے کے بعد دونوں خاندانوں پر جو گزرتی ہے وہ صرف وہی بہتر جانتے ہیں ۔ کیونکہ رشتہ صرف دو انسانوں کے درمیان نہیں بلکہ دو خاندانوں کو آپس میں جوڑنے کا نام ہے ۔ موجودہ دور کی نوجواں نسل جذباتی ہے ۔ شرمندگی اور لوگوں کی پوچھ گچھ سے تنگ آکر خودکشی کرنا عام بن گیا ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ شریعت کے مطابق رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں سے ان کی مرضی پوچھ لی جائے تاکہ کل کو ایسا دن دیکھنے کو نہ ملے ۔ لیکن ہمارے ہاں لڑکی کتاب اللہ کے سائے میں رخصت کرتے وقت جہاں دیگر نصیحتیں کی جاتی ہیں وہاں یہ بھی سمجھا دیا جاتا ہے کہ ڈولی اٹھنے کے بعد تمہارا جنازہ تو اس گھر میں آ سکتا ہے لیکن تم روٹھ کے نہیں آسکتی ، جو بھی ہو نبھا کرنا ، برداشت سے کام لینا ۔اس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ شادی کے بعد بھی لڑکی کا باپ کے گھر پر اتنا ہی حق ہوتا ہے جتنا پہلے ہوتا ہے ۔
اسلام نے وراثت میں جس کا جو حق مقرر کیا ہے اس پر عمل پیرا ہونا ہمارا دینی فریضہ ہے کیونکہ ہم جتنے حقوق اللہ کے پابند ہیں اتنے ہی حقوق العباد کے بھی ہیں بلکہ بروز حشر اللہ تعالی ہمیں اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ بندہ ہمیں معاف نہ کردے ۔وراثت میں اپنا حصہ دے کر بعد میں قطع تعلقی کرنے کی بھی ہرگز اجازت نہیں ہے ۔ ان تمام برائیوں کا سدباب ممکن ہے اگر ہم اپنے دین کی پیروی کرنا شروع کردیں ۔
بیٹی کو شادی کے وقت کچھ دینا اگر ایک طرف سنت نبویۖہے تو دوسری طرف وہ باپ کے ترکے میں بھی تیسرے حصے کی مالکن ہوتی ہے ۔ اگر ہم ان اصولوں کی پابندی کریں گے تو ہمارا معاشرہ جنت کا نمونہ بن جائے گا اور ہم صحیح معنوں میں مسلمان بن سکیں گے ۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی