1 319

شامی گوریلوں کو کشمیر منتقل کرنے کا افسانہ

جب سے بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملہ کیا ہے ردعمل کے احساس اندر کا خوف بن کر اسے بے چین رکھے ہوئے ہے۔ حقیقت میں ابھی تک بھارت کو پاکستان، آزادکشمیر اور مقبوضہ وادی کے اندر سے زبانی کلامی سے زیادہ کسی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آج بھی کشمیر میں عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔ پاکستان کی طرف سے عالمی ایوانوں میں کشمیر کا ذکر بھی نیا نہیں، گویاکہ ابھی تک بھارت نے کشمیر کی شناخت کے خاتمے کا یک طرفہ قدم اُٹھایا ہے۔ اس منظر پر اگر کچھ نیا ہوا ہے تو وہ چین کیساتھ بھارت کی کشیدگی اور لداخ میں چینی فوج کی پیش قدمی ہے۔ یک طرفہ قدم اُٹھانے کے بعد اب بھارت اندر کے خوف کا شکار ہے۔ اس کا تعلق ردعمل سے ہے، نگورنو قرہ باغ میں آذربائیجانی افواج کو ترکی اور پاکستان کی مدد نے بھارت کے اندر کے خوف کو مزید بڑھا دیا ہے۔ نگورنو قرہ باغ کے تنازعے میں بھارت نے آرمینیا کا ساتھ دیا جبکہ ترکی اور پاکستان آذربائیجان کیساتھ کھڑے رہے۔ اس پس منظر میں یونان کے ایک اخبار ”گریک سٹی ٹائمز” میں یہ افسانہ چھپا کہ ترک صدر طیب اردوان کی ہدایت پر ترکی نے شام میں لڑنے والے جنگجوؤں کو کشمیر بھیجنے کی منصوبہ بندی شروع کی ہے اور یہ جنوبی ایشیائی مسلمانوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی ترک کوششوں کا حصہ ہے۔ نگورنو قرہ باغ میں کامیابی سے حوصلہ پاکر ترکی نے کشمیریوں کی مدد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کیلئے مختلف علاقوں میں بھرتیاں بھی کی جارہی ہیں۔ ہر جنگجو کو دوہزار ڈالر معاوضہ دیا جائے گا۔ اس افسانے میں مزید رنگ آمیزی کیلئے شامی نیشنل آرمی نامی مسلح گروہ کیساتھ لڑنے والی سلیمان شاہ بریگیڈ کے سربراہ ابو ایمشا کا حوالہ دیکر کہا ہے کہ ترکی چاہتا ہے کشمیر کی مدد کی جائے۔ یونانی اخبار کی یہ افسانوی رپورٹ بھارت کے میڈیا کیلئے ایک چند دن کی بحث وتمحیص اور الزامات کا سامان لیکر آئی۔ بھارتی میڈیا نے اس رپورٹ کا حوالہ دیکر پاکستان کو ترکی کیساتھ ملا کر کسی نئی سازش کا الزام دینا شروع کیا۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی میڈیا کی ان قیاس آرائیوں اور الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ بھارتی میڈیا ان رپورٹس کو بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ کشمیر میں نریندر مودی نے مسائل کا جو پنڈورہ باکس کھولا ہے اس سے نکلنے والی بلاؤں کا خوف اب اسے دامن گیر ہے۔ بظاہر حالات میں کسی غیرمعمولی تبدیلی کا امکان نہیں۔ کشمیر پر بھارت نے اپنی گرفت مضبو ط کر لی ہے۔ قوانین کی تبدیلی کے نام پر آبادی اور جغرافیہ پر اثر انداز ہونے والے دوررس فیصلوں کا اختیار بھی حاصل کر لیا ہے۔ وادی کی مزاحمتی مسلمان قیادت جیلوں میں بند ہے اور روایتی سیاستدان بھی بے اثر بنا کر رکھ دئیے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نام پر بھارتیہ جنتا پارٹی زدہ سیاست کی نئی پنیری لگائی جارہی ہے۔ مسلمان اکثریتی علاقے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہمنوا کلاس تیار کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی منظر اور گرد وپیش کا کوئی بھی غیرمعمولی واقعہ بھارت کو خوف کا شکار کئے ہوئے ہے۔ القاعدہ اور داعش کی کشمیر آمد اور منتقلی کا افسانہ سنتے سنتے کان پک گئے۔ داعش کشمیر نامی تنظیم کا وجود بھی تلاش کیا جا چکا تھا اور یہ سلسلہ 2014 سے جاری ہے مگر داعش کا نقش قدم کشمیر کی زمین پر کہیں تلاش نہیں کیا جا سکا اس سے پہلے القاعدہ کے کشمیر منتقل ہونے کی خبریں بھی وقفے وقفے سے اُڑائی جاتی رہیں۔ افسانہ طرازی کے اس سلسلے کا مقصد کشمیر کی خالص سیاسی تحریک کے ڈانڈے عالمی دہشتگردی سے جوڑنا اور اسے دنیا میں بدنام کرنا تھا۔ یہ مقاصد کامیاب ہو سکے نہ کشمیر کے معاشرے نے القاعدہ اور داعش کی آمد کی اطلاعات پر جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ کشمیر کی سیاسی اور مزاحمتی قیادت نے ہمیشہ القاعدہ اور داعش کے بیانات کے جواب میں انہیں کشمیر کے معاملات سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ اب نگورنو قرہ باغ جنگ کے نتائج اور اثرات نے پرانے خوف کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ کشمیر میں بھارت نے جو اقدامات اُٹھائے ہیں یہ خوف بڑھتے بڑھتے ایک نفسیاتی عارضہ بن جائے گا۔ شامی گوریلوں کو کشمیر منتقل کرنے کا افسانہ بھی اسی عارضے کا حصہ ہے۔ یہ طیب اردوان اور ترکی کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ ہے وہیں مغربی دنیا سے ہمدردی سمیٹنے کی خواہش کا آئینہ دار بھی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ بھارت اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے کنٹرول لائن پر جس فالز فلیگ آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ کنٹرول لائن پر حریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے نریندر مودی اپنے مصنوعی مجسمے کو تباہی اور کرچی کرچی ہونے سے بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ خود پاکستان کے فوجی ذرائع نے یہ خبر بریک کی ہے کہ بھارت اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کیلئے کنٹرول لائن پر سرجیکل سٹرائیک کا سہار ا لے سکتا ہے جس کے بعد افواج کو ہائی الرٹ کیا گیا ہے۔ سرجیکل سٹرائیکس کے اقدام کو جوازیت دینے کیلئے کنٹرول لائن کے قریب حریت پسندوں کے ٹھکانوں کا واویلا کیا جاتا ہے اور اب ان ٹھکانوں میں شام اور ترکی کے شہریوں کی موجودگی سے اسے دوبارہ بین الاقوامی دہشتگردی کی تحریک ثابت کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟