4 422

شاہراہ حب

کسی ریا ست کے قریہ وامصار کا نا م اس کی ثقافت و تہذیب اور تاریخ کا امین ہو ا کرتا ہے چنانچہ یہ رسم قدیم ہے کہ اپنے اکابرین کے نا م سے شاہر اہو ں ، محلے ،گلی کوچو ں ، بڑی بڑی اور اہم عما رتوں کو منسوب کرتے ہیں اکابرین کے نام سے منسوب عمارات اور مقاما ت وغیرہ نہ صرف ان کی خدمات کا اعتراف قرار پا تی ہیں بلکہ وہ اپنی جگہ نئی نسل کے لیے تاریخ کا ایک سنہر ی ورق بھی قرار پا تی ہیں اس لیے لا زمی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ایسا نہیں کر نا چاہیے ، جگہو ں کے نا م اکا برین کے نا م پر ہی نہیں بلکہ اکژوبیشتر ریا ست کی دوست قرار پانے والی غیر ملکی شخصیا ت سے بھی جوڑ دی جا تی ہیں ایک زما نے میںپاکستان کے تما م بڑے شہر وں میں سعودی فرما نروا شاہ فیصل سے منسوب شاہر اہوں کے نام رکھے جا تے تھے اسی طرح پاکستان کے مختلف شہر وں کی سٹرکو ں کے نا م شاہ ایر ان کے نا م سے منسوب تھے جو انقلا ب ایر ان کے بعد ہٹا دئیے گئے ، گوبات یہ ہے کہ مقاما ت کے نام کسی بنیاد پر ہی رکھے جا تے ہیں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ اسلا م آبا د کی کسی سڑک نا م افغان کما نڈر احمد شاہ مسعود کے نا م پر منسوب کر دیا جا ئے ، کا فی سارے دن گزرچکے ہیں اس خبر کے بارے میں نہ تو وزیر اعظم ہاؤس اورنہ وزارت خارجہ کی طرف سے کوئی وضاحت یا تردید آئی ہے ، ایسا اقدام عمر ان خان نے احمد شاہ مسعو د کے بھائی سے گزشتہ دنو ں اسلا م آباد میں ملا قات کے بعد کیا ، کہا جا تا ہے کہ احمد شاہ مسعود کے بھائی نے نا م رکھنے کی خواہش کی تھی یہا ں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس خوشی میں احمد شاہ مسعود کے نا م پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلا م آبا دکی شاہر اہ کا نام رکھ دیا جا ئے ، عمر ان خان نے افغان کما نڈر کی یہ خواہش قبول کر لی ہے تو کیا وزیر اعظم احمد شاہ مسعو د کو پاکستان کا دوست سمجھتے ہیں کیا وہ احمد شاہ مسعود کے کر دار سے واقف ہیں ، افغانستا ن میں سوویت یو نین کی مداخلت سے پہلے سیاست دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی ، ایک اسلامی مکتبہ فکر کے متوالے تھے تو دوسرے کیمونزم کے دلدادہ تھے کابل کے اہم ترین تعلیمی ادارے پولی ٹیکنک کا لج میں طلباء یو نین کے انتخابات کا رن پڑا تو دو مضبوط امیدوار سامنے آئے ان میں ایک گلبدین حکمت یار اور دوسرے احمد شاہ مسعو د تھے ان انتخابات میں احمد شاہ مسعو د کو بری طر ح شکست ہوئی تب سے یہ حکمتیا ر کے سینہ سپر ہوگئے ، چونکہ احمد شاہ مسعو د کا تعلق افغانستان کے شما لی علا قہ سے تھا اور تاجک قوم سے تعلق رکھتے تھے اسی بناء پر وہ پروفیسر برہا ن الدین ربانی کی پارٹی میں شامل ہوگئے کا بل اور جنوبی افغانستان کو شمال سے ملانے والا واحد راستہ درہ سالانگ کاہے جس پر احمد شاہ مسعو دکی قوم کی اجارہ داری تھی یہ علا قہ قیمتی پتھروں سے بھی مالا مال ہے احمد شاہ مسعودنے ان پتھروں کی فرانس کو خوب اسملنگ کی اور خوب ہاتھ رنگے اسی طرح درہ سالانگ کو بھی تب کھولتے جب ان کی مٹھی گرم کر دی جاتی چنانچہ روسی فوجوں نے اس سے خوب فائدہ حاصل کیا ، جب سوویت یو نین کے خلا ف افغان عوام نے جہا د شروع کیا تو اس وقت ان کے فرانس کی کیمونسٹ پارٹی سے روابط استوار ہوئے جو روسی کیمونسٹ پارٹی نے کرائے ، سوویت یونین کے خلا ف جہا د کے سلسلہ میںایک دن بھی اپنے علاقے سے باہر قدم نہیں رکھا البتہ پرانی رقابت کی بنیاد پر حکمتیار کے مجاہدین کے لیے درد سر بنے رہے اور ان سے کئی معرکے بھی کیے روسی فوجو ں سے ایک ہی مر تبہ ا ن کی مڈھ بیر ہوئی باقی تما م عرصہ انہوں نے حزب اسلامی کے مجا ہد ین کے لیے اپنی وادی کے درو ں کا راستہ تنگ رکھا ، امریکا اور بعض دوسرے مغربی ممالک جو شروع دن سے اپنے مقاصد کے لیے افغانستان میںقدم جمانے کے لیے راستہ تلا ش کر رہے تھے ان کو یہ آسانی اس طرح میسر آئی کہ احمد شاہ مسعود فرانسیسی زبان بول سکتے تھے چنانچہ مغربی دنیا کے ممالک نے ان کی اس خوبی سے فائدہ پایا اور فرانس نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا جب احمد شاہ مسعود کو ایک بم دھماکے میں ما را گیا تو اس وقت بھی فرانسیسی صحافیو ں کی ایک ٹیم ان کا انٹرویو کر رہی تھی ، اورکہا یہ جا تا ہے کہ بم ایک کیمرے میں نصب کیا گیا تھا ، اسی طرح سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ان کے تعلقات مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی گہر ے ہو تے رہے یہا ں تک کے جب طالبان کے خلا ف جب شمالی اتحاد قائم کیا گیا تو اس کی مالی امداد میں بھارت نے بھی ایک بڑا حصہ ڈالا ، یہ شمالی اتحاد طالبان کے خلا ف سرگرم عمل تو تھا ہی مگر اس نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کرنے میںکوئی کسر نہ چھو ڑی ۔ افغانستا ن میں کئی پاکستان مخالف مظاہر و ں کو احمد شاہ مسعود کی حما یت رہی اور پاکستانی سفارت خانے کے باہر مظاہر وں اور حملو ں میں بالواسطہ اور بلا واسطہ شریک عمل رہے ، یا د رہے کہ کسی بھی ملک کے سفارت خانے پر حملہ اس ملک پر حملہ سمجھا جاتا ہے ، احمد شاہ مسعو د کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کے سفارت خانے پر پہلی بار حملہ اس وقت کرایا جب پا کستان کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کابل کے دورے پر تھے ، دوسرا جان لیوا حملہ دفاع یوم پاکستان6ستمبر 1995کو کیا گیا اس وقت احمد شاہ مسعود تب افغانستان کے وزیر دفاع تھے ،پاکستان کے سفارت خانے پر اس حملے کے نتیجے میں دودرجن کے لگ بھگ غیر مسلح ارکان شدید زخمی ہوئے اور سفارت خانے کا ایک اہلکار جا ن سے گیا ، حملہ آور وںنے اہلکار کو پاکستانی سفیر سمجھ کر پے درپے وارکر کے قتل کردیا تھا ، علاوہ ازیں زخمیوں میں سفیر پا کستان کے علا وہ ڈیفنس اتاشی بھی شامل تھے ، اب سوچئے کہ کس شخصیت کے نام پر شاہر اہ منسوب کر نے کی فرمائش پوری کی جا رہی ہے ۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟