شبر زیدی کی بے تکی منطق

شبر زیدی ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز معیشت دان ہیں۔ وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کے چیرمین بھی رہ چکے ہیں۔ آج کل ان کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں موصوف کہتے نظر آتے ہیں کہ دنیا میں کبھی ریاست مدینہ نام کی کوئی ریاست تھی ہی نہیں۔ اللہ کی رحمت سے انکارکرتے ہوئے موصوف کا کہنا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے جس ریاست مدینہ کی ہم بات کرتے ہیں وہ ایک قبائیلی معاشرہ تھا جہاں نہ کوئی سکول تھا’ نہ کالج’ ہسپتال تھا’ نہ سڑک تھی’بجلی تھی نہ ٹیلی فون اور بینک ۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ جب وہ کسی فورم پر تقریر کرنے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ فورم میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے پچیس فی صد سے زیادہ لوگ داڑھی والے ہیں یا باپردہ خواتین ہیں تو وہ وہاں پر خطاب کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ ملا ‘مولوی’ مدرسے اور باحجاب خواتین ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شبر زیدی معیشت کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم پر بھی وہی دسترس حاصل ہے جس کی بنیاد پر وہ تاریخ کو ہی مسخ کردے۔ شبر زیدی کی ان بے تکی اور بے سروپا باتوں سے لگتا ہے کہ موصوف کو نہ تو کہیں تاریخ اسلام سے کوئی واسطہ پڑا ہے اور نہ ہی اپنی محدود سوچ سے آگے نکل کرعالمگیر انقلاب کے داعی اور ان کی قائم کردہ فلاحی ریاست کے بارے میں کبھی پڑھا ہے۔یہی بات تو پوری دنیا کے لئے باعث حیرت ہے کہ ایک قبائیلی معاشرہ جہاں نہ سکول تھا نہ کالج’ سڑک تھی نہ کوئی بڑی بڑی عمارتیں’ ہسپتال تھا نہ بجلی اور ذرائع مواصلات لیکن اس کے باوجود اسی ریاست مدینہ کے بانی نے بے سروسامانی کی حالت میں کیسے اس وقت کی دو عظیم طاقتوں یعنی فارس اور روم کے سلطنتوں سے ٹکر لی اور پورے عالم میں اسلامی سلطنت قائم کی۔ شبر زیدی کا علم شاید اس بارے میں ابھی نامکمل ہے کہ جس ریاست کی بنیاد فخر موجودات’ سرورکائناتۖ نے آج سے چودہ سو سال پہلے رکھی تھی اور پھر اس کے مشن کو خلفائے راشدین نے آگے بڑھایا اسی ریاست کے تصورات کو ادھار لے کر مغرب نے اپنی طرز حکمرانی کی بنیاد ڈالی اور جب ہم نے اللہ اور اس کے رسولۖ کے بتائے ہوئے زرین اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کی ذمہ داریاں شبر زیدی جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی تو اللہ تعالیٰ کے غضب کے کوڑے پوری قوم پر برسنے لگے اورہم ایک غلام قوم بن گئے۔یہی تو سوچنے والی بات ہے جس پر شبر زیدی اور ان جیسے سوچ کے حامل روشن فکر طبقے کو سوچنا چاہئے کہ عرب کے وہ بدو جو تعلیم سے نا آشنا تھے’ دنیا کے معلم کیسے بن گئے؟ جو جاہل’گنوار تہذیب اور تمدن سے نابلد تھے وہ دنیا کو تہذیب کیسے سکھانے لگے ‘جو رہزن تھے وہ رہبر کیسے بن گئے’ جو ان پڑھ تھے وہ دنیا کو حکمرانی کے گر کیسے سکھانے لگے؟ شبر زیدی اس عالمگیر انقلاب اور اس کے بانی کو کوئی کریڈٹ دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میری گزارش ان سے صرف اتنی سی ہے کہ وہ دنیا کے بڑے بڑے لکھاریوں کی تحریریں پڑھیں جنہوں نے غیر مسلم ہوکر بھی حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے عالمگیر انقلاب کو دنیا کا سب سے بڑاانقلاب قراردیا ہے اور ان کے بنائے ہوئے ریاست کو دنیا کا بہترین فلاحی مملکت قراردیا ہے۔ اسی ریاست مدینہ میں احتساب کے عمل کا یہ عالم تھا کہ ایک بندہ اٹھ کر خلیفہ وقت سے پوچھتا تھا کہ آپ کے کرتے پر ضرورت سے زیادہ کپڑا کیوں لگا ہے۔ وہی خلیفہ کہا کرتاتھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی مرے تو اس کے لئے عمر سے پوچھا جائیگا۔ کیا ہم شبر زیدی کے اسی مملکت میں کسی صدر یا وزیراعظم سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ جس محل میں وہ رہ رہے ہیں اس کے سوئمنگ پول کی آرائش وزیبائش پر قوم کا کتنا خرچہ اٹھا ہے۔ ۔شبر زیدی سے کوئی پوچھے کہ قوم کی معیشت کو کسی ملا’مولوی’ مسجد کے امام یا باحجاب خاتون نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں گروی نہیں رکھا۔ جب آپ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپ تو داڑھی والے نہیں تھے۔ آپ مونچھوں کو تائو دے کر باآسانی اس ملک کی معیشت کو اسی دلدل سے نکال سکتے تھے۔ کیا کسی مولوی نے آپ کا ہاتھ روک رکھا تھا۔ شبر زیدی جیسے لوگ سیکولرزم اور روشن فکری کے نام پر وہ بنیاد پرست ہیں جو اپنے مادر پدر آزاد نام نہاد روشن فکری کے تصورات کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے سادہ لوح انسانوں کو بیچنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ آپ روشن فکر نہ ہو لیکن روشن فکری کی آڑ میں اپنے خیالات اور تصورات کو لوگوں پر مسلط کرنا داراصل وہ بنیاد پرستی ہے جس کا لیبل ہمارے ہاں صرف مذہب سے پیار کرنے والے لوگوں پر چسپان کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کا حامی وناصر ہو۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا