شجرکاری اور تحفظ اشجار

موسم بہار کی شجرکاری مہم کا جس طرح زور وشور سے آغاز ہونا چاہئے ابھی تک اس میں وہ سرگرمی نظرنہیں آتی ممکن ہے چند دنوں میں حکام کوہوش آجائے اور وہ اس حوالے سے منظم مہم کی ضرورت محسوس کریں۔ شجرکاری سنت اور باعث ثواب کار ہے ہمارے اسلاف کی بھی روایت رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے اور خاص طور پر میوہ دار درخت لگانے کو بہت ترجیح دیتے آئے ہیں ماضی میں شجرکاری کی ضرورت سوختنی و عمارتی لکڑی اور پھلوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بنیادی ضرورت سمجھا جاتا تھا مگراب اگر قرار دیا جائے کہ وہ ساری ترجیحات پس پشت رہ گئیں اب سانس لینے اور آکسیجن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے شجرکاری کی ضرورت ہے تو مبالغہ نہ ہوگا ہوا کی کثافت اور آلودگی اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ شہروں میں اب سانس لینا ہی دشوار ہوگیاہے جنگلات کی بے دریغ کٹائی شہرائوکے عمل کے باعث درختوں کی جگہ کنکریٹ کے فلک بوس ”جنگلات” کاامڈتا شہر پشاور کو اب پھولوں اور باغات کا شہر تو کیارہنا تھا اب یہاں آلودگی دھول اور مردہ ومتعفن سیلن زدہ ہوا کے باعث سانس لینا بھی دشوارسے دشوارتر ہوتا جارہا ہے شہر میں پارک اور سبزہ والی راہداریاں خال خال ہی نظرآتی ہیں مرکزی شہر میں تو دور دور تک کسی درخت پر نظر نہیں پڑتی ماضی کے جو درخت تھے وہ اکھاڑے جا چکے یاپھر وہ امتدادزمانہ کا شکار ہوئے ان کی جگہ درخت اور پودے لگانے کی اولاً توجگہ ہی باقی نہیں رہی اور اگر تھوڑی بہت کہیں گنجائش نظر آتی ہے وہاں دکھاوے کی شجرکاری ہر سال ہوتی ہے مگر پودے سوکھ جاتے ہیں ان کی نگہداشت و پرداخت کا سرے سے انتظام نہ ہونا اور اس ضمن میں سنگین غفلت ناقابل برداشت ہوگئی ہے ۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ آج کل دنیا خاص طور پرپاکستان جس طرح موسمیاتی تغیرات ‘ آلودگی’ خشک سالی ‘ طیغانی اور سیلابوں کی جس طرح زد میں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ قدرت سے متصادم وہ اعمال و ا فعال ہیں جس میں خود انسانوں کے ہاتھوں قدرت و فطرت کے مناظر و مظاہر کا صفایا ہوا اور جب قدرت و فطرت بپھر گئی تو ترقیاتی یافتہ ممالک سے لے کر دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی طرح موسمیاتی تغیرات کی زد میں آیا اور املاک وحیات انسانی سبھی خطرات کا شکار ہوئی اور مزید خطرات کی زد میں ہے صنعتی آلودگی اور دیگر وجوہات کا قدرتی سدباب بڑے پیمانے پر شجرکاری ہی میں پوشیدہ ہے جس پر عالمی سطح پر توجہ اور وسائل صرف کرنے کی ضرورت ہے پودے قدرتی دولت اور نعمت ہیں جس سے ملکی معاشی معاشرتی اور ماحولیاتی خوشحالی میں اہمیت کوئی پوشیدہ امر نہیں ایک ایسے ارض وطن جوشجرکاری اور جنگلات کے رقبے میں اضافے کے قدرتی جوہر سے مالامال ہو اگراس سے استفادہ کرنے میں تساہل برتا جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی۔ہمارے تئیں صرف شجرکاری اور پودوں کی نگہداشت کا عمل ہی کافی نہیں بلکہ تحفظ اشجار کی ذمہ داری پر بھی پوری توجہ کی ضرورت ہے سابقہ دور حکومت میں اس حوالے سے جو اقدامات کئے گئے اس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں لگائے گئے پودے جنگل کی صورت اختیار کر گئے مگر افسوسناک طور پر زیادہ تر مقامات میں یہاں تک ہوا کہ فرضی شجرکاری کی گئی اس ضمن میں سکینڈل سابق دور ہی میں سامنے آچکا ہے تحفظ اشجار کی بھی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی تحفظ اشجار کے ساتھ ساتھ قدرتی جنگلات کی حفاظت پر خصوصی توجہ کی اس لئے زیادہ ضرورت ہے کہ سو سال میں درخت کی شکل اختیار کرنے والے قیمتی درختوں کی جس طرح ٹمبر مافیا بیخ کنی کی مہم پر ہے اس سے قدرتی جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہو رہا ہے اور جنگلات ختم ہو رہے ہیں جنگلات کی بیخ کنی کے مختلف حربے بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں یہ سارے عوامل و معاملات سنجیدہ کردار اور سخت اقدامات کے متقاضی ہیں بدقسمتی سے ٹمبر مافیا ہر سیاسی حکومت کا حصہ ہوتی ہے جس کے باعث ان کے خلاف کاررائی ممکن نہیں ہوتی جبکہ محکمہ جنگلات کا راشی اور بدعنوان عملہ ان کی سہولت کاری کرتا ہے اس گٹھ جوڑ کا خاتمہ بہت ضروری ہے جب تک شجر کاری تحفظ اشجار اور قدرتی جنگلات کے تحفظ کی ذمہ داریاں کماحقہ ادا نہیں ہوتیں اس وقت تک اس ضمن میں کوئی امید وابستہ کرنا حقیقت پسندانہ امر نہ ہوگا اس مقصد کے لئے اب سول سوسائٹی اور عوام کوبھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔عوام شجرکاری تحفظ اشجار اور قدرتی جنگلات کے تحفظ میں اپنے کردار کو سمجھے اور اس کے لئے کمربستہ ہو اس کے بعد ہی مطلوبہ مقاصد کے حصول کی توقع ہوسکتی ہے ۔ عوام بھی اس کو قومی و اخلاقی فریضہ سمجھ کر نبھائے تبھی ان عناصر کا راستہ رونا ممکن ہوگا۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان