شخصیت سازی میں تعلیم و تربیت کا کردار

پروفیسر اقبال تاجک مرحوم کا وہ شعر میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے جو انہوں نے ہمیں پشاور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں پہلے ہی دن سنایا تھا۔
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
اتنا طوطی کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
بلاشبہ ڈگریاں تعلیم پر اٹھنے والے ہمارے اخراجات کے وہ اسناد ہوتے ہیں جو ہم سالہا سال ان کے حصول پر خرچ کرتے ہیں ۔ اصل تعلیم تو وہ ہے جو ہماری شخصیت کا حصہ بنے۔ جو ہمیں اچھے اور برے میں تمیز اور نیکی اور بدی کا فرق سمجھائے، معروف کو کرنے اور منکرات سے بچنے کی تلقین کرے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم تعلیم یافتہ ہوکر بھی حلال وحرام میں تمیز نہیں کرسکتے۔ جائز و ناجائز میں امتیاز نہیں کرسکتے۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کراتے وقت آج ہم انہی مہنگی ترین سکولوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں بچے بڑے ہوکر فر فر انگریزی بو ل سکے تاکہ عملی میدان میں روزگار کے حصول میں وہ اسکے ممد ومعاون ثابت ہوں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف اچھی انگریزی بولنے سے وہ بچہ اچھا انسان نہیں بلکہ انسان کے لبادے میں وہ بھیڑیا بن جاتا ہے جو بعد میں اسی معاشرے کے انسانوں کا خون چوس چوس کر تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا امتیاز کئے بغیر سود سمیت سمیٹ لیتا ہے۔اسکے ساتھ ایک اورجڑا مسلہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم کا بندوبست تو کرلیتے ہیں لیکن انکی تربیت کے پہلو کو نظر انداز کرلیتے ہیں۔ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔یہ انکے والدین ہی ہوتے ہیں جو انکو اچھا یا برا بناتے ہیں۔ کیونکہ انکے پہلے مربی انکے والدین ہی ہوتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کو اپنے مقصد حیات سے جوڑدے۔ وہ انسان کو انکی وجہ تحلیق بتاتے ہوئے ان کو اس حقیقت کا پوری طرح سے شعور دلائے کہ ان کا خالق ومالک، رازق و معبود کون ہے۔وہ انسان کو یہ شعور فراہم کریں کہ وہ اس کائنات کے اندر قدر ت کے بنائے ہوئے ان چھپے خزانوں کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے باہر نکالتے ہوئے کائنات کی وسعتوں اور اللہ تعالی کی صناعی، خلاقی اور قدرت کاملہ پر غور و حوض کریں۔
ہم تربیت کے نام پر اپنے بچوں کو کسی کام سے زبردستی روکتے ہیں۔ یہ تربیت نہیں ہے۔ بچوں کو جس کام سے زبردستی روکا جاتا ہے، اس کام کو کرنے کے لئے ان کا تجسس اتنا ہی بڑھ جاتا ہے اور نتیجتاً اس کام کو کرنے کے لئے وہ ہرحربہ استعمال کرنے لگ جاتا ہے۔اسکے اختیار کو اپنے ہاتھوں میں لینا یا اس کو کسی کام سے منع کرنے کے لئے ڈرانا، اسے خوف دلانا، طمع یا لالچ دینا بھی بچے کی تربیت نہیں ہے بلکہ اصل تربیت یہ ہے کہ بچے میں وہ جذبہ ابھارنے کی کوشش کی جائے جس کے ذریعے وہ اپنے اختیار کے ساتھ وہ کام کرے جس کو اس سے کرانا مقصود ہو۔ تعلیم ایک بچے کو اچھے اور برے میں تمیز سکھاتی ہے لیکن تربیت یہ ہے کہ اسے خود اچھی چیز اچھی اور بری چیز بری لگے۔
انفرادی طور پرہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تربیت کے پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے بچے کو زیادہ نمبر لینے کی دوڑ میں اس بری طرح سے لگایا ہوا ہے کہ وہ اچھے برے ذرایع سے زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرکے اچھے گریڈ میں پاس ہونا چاہتا ہے اور ان کے مربی (والدین) اس بچے کو طالب علم کی بجائے طالب نمبر ہونے کی کوشش میں انکا بھر پور ساتھ دیتے ہیں۔معاشرتی لحاط سے ہمارا المیہ وہ نظام تعلیم ہے جس نے معاشرے کومختلف طبقات میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ہمارے مدرسوں سے نکلنے والے طلبہ کا میدان عمل میت کی تجہیز وتکفین، نکاح وطلاق، امامت اور مسجد کے ممبر ومحراب تک محدود رہتا ہے۔ جبکہ عصری علوم حاصل کرنے والے طلبہ دنیوی علوم میں آسمان کی بلندیوں کو تو چھولیتے ہیں لیکن اکثر وبیشترانہیں دینی علوم کا ماشہ بھر بھی پتہ نہیں ہوتا۔
جس نے سورج کی شعاوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک کو سحر کرنہ سکا
امر واقعہ یہ ہے کہ دین و دنیا میں ابدی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں ایسے متوازن شخصیات کو پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہو جو ایک طرف توعصری علوم میں مہارت رکھتے ہوں اور دوسری طرف دینی تعلیم سے بھی بہرہ ور ہوں۔ہمیں بلاشبہ امور ریاست چلانے کے لئے ماہر معاشیات، سیاسیات، عمرانیات، فلکیات ، حیاتیات اورسائنسدانوں کی ضرورت ہے لیکن ہمیں دینی علوم کے ماہر ایسے قانون دان، فلسفی، فقیہ اور روحانی اماموں کی بھی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے منعم حقیقی کی کبریائی سے روشناس کراتے ہوئے اپنے اصل منزل مقصود تک رہنمائی میں ممد ومعاون ثابت ہوں۔اسکی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنے نظام تعلیم میں عصری اور دینی علوم کا بہترین توازن قائم کرکے ایسے افراد پیدا کریں جو معاشرے میں موجودہ شدت پسندی کی میلانات کی بیخ کنی کرتے ہوئے عدل و قسط کی بنیاد پر ایک ایسے صالح معاشرے کی بنیاد رکھیں جو سماجی انصاف ، کامل انسانی مساوات ، اخوت ورواداری، ہمدرددی اور بھائی چارے کا ایک کامل نمونہ ہو۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟