3 269

شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم

جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنا شاید ایسے ہی موقعوں کیلئے مختص ہے ،اس بات کی وضاحت ایک پشتو ضرب المثل سے کی جائے تو بہتر ہوگا، پشتون معاشرے میں ایک بات بہت مشہور ہے جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ ”میں بھوک سے مر رہا ہوں اور یہ میرے سرہانے پراٹھے ڈھونڈ رہا ہے” بات کی وضاحت کئے بناء بات نہیں بنے گی، تو مقصد یہ ہے کہ ان دنوں صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے اس بات پر کہ سردیوں کی شدت سے بھی پہلے یعنی گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے سے گیس ناپید ہو چکی ہے، اخبارات کے صفحات پر عوام کے احتجاج کی خبریں نمایاں سے نمایاں تر ہورہی ہیں مگر پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان کا ”مذاقیہ” بیان سامنے آیا ہے کہ ملک میں کہیں بھی گھریلو، انڈسٹریل اور کمرشل صارفین کیلئے گیس لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے کہ انگریزی محاورے فرام دی ہارسز مائوتھ کی روشنی میں اہم سرکاری شخصیات کے بیانات کا ذکر کیا جائے، پہلے کچھ خبروں کی سرخیوں کو سامنے لے آتے ہیںیعنی عوام کے احتجاج کی صورتحال واضح کر دی جائے، ایک خبر ہے کہ شہر میں گیس بندش سے عوام کو شدید مشکلات، رات نو بجے سے فجر تک گیس مکمل طورپر غائب، ایک اور خبر میں بعض علاقوں کے نام لیکر وہاں گیس کی قلت کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے ایک اور محاورہ یعنی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں بھی اپنی جانب توجہ دلارہا ہے کیونکہ یہ گیس شیڈنگ چند مخصوص علاقوں تک محدود نہیں بلکہ نوے فیصد شہر اس کی زد میں ہے،خود راقم کے علاقے گل بہار کالونی جو شہر کی جدید بستیوں میں شمار ہوتی ہے اور جہاںنہ صرف رہائشی سوسائٹیاں ہیں بلکہ کمرشل عمارتیں فوڈ شاپس وغیرہ بھی نمایاں ہیں، وہاں رات نو بجے سے اذان فجر تک کے علاوہ ان دنوں دن کے اوقات میں بھی گیس پریشر کا مسئلہ پریشانی کا باعث ہے اور یہ صورتحال ایک ایسے صوبے یعنی خیبرپختونخوا کے دارالحکومت کی ہے جو خود قدرتی گیس کے ذخائر سے مالامال ہے اور آئین کی رو سے یہ گیس ترجیحی بنیادوںپر پہلے اسی صوبے کو ملنی چاہئے مگر جب صوبائی دارالحکومت کا یہ حال ہو تو دیہی علاقے یا دیگر چھوٹے شہروں کا کیا حشر ہورہا ہوگا، اس کا تو ذکر ہی فضول ہے اس پر بھی جب پیٹرولیم ڈویژن کا ترجمان یہ فرمائے کہ ملک بھر میں کہیںبھی گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی ہے تو اسے ”مذاقیہ” بیان قرار نہ دیا جائے تو پھر کونسا نام دیا جائے، بقول یاس یگانہ چنگیزی
شش جہت ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں
اب آتے ہیں اس ”فرام دی ہارسز ماؤتھ” کی جانب یعنی پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان کی بات کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے حالیہ اس بیان کی روشنی میں پرکھ لیتے ہیں جب انہوں نے عوامی شکایات پر نہ صرف یہ آئینی مؤقف اختیار کیا تھا کہ قدرتی گیس پر صوبے کے عوام کا پہلا حق ہے اس لئے گیس پریشر کے مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے، تو ترجمان صاحب پر صوبے کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخصیت کے اس انتباہ کی وضاحت تو بنتی ہے اور پھر یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ ابھی لگ بھگ آٹھ دس روز پہلے ہی متعلقہ محکمہ والوں نے نئے پائپ لائن کا افتتاح کرواتے ہوئے وزیراعلیٰ سے یہ بھی تو کہلوایا تھا کہ بڑے قطر کی اس پائپ لائن کے بعد شہر میں گیس کی کمی کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو گیا ہے۔
اب خداجانے محکمہ نے وزیراعلیٰ کیساتھ ”ہاتھ” کر لیا تھا یا پھر اصل حقیقت کیا تھی یعنی وہی حیلے ہیں پرویزی کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے اہم مناصب پر براجمان شخصیات کے ہاتھوں افتتاحی تختیوں پر پڑے ہوئے پردوں کی ڈوریاں کھچوا کر ان تختیوں کی نقاب کشائی کی آڑ میں عوام کی آنکھوں پر پردے کھینچ دئیے جائیں، اب مسئلہ مگر یہ ہے کہ عوام کی عادتیں خراب ہوگئی ہیں اور ساتھ ہی ان کے حافظے بھی تر وتازہ ہوچکے ہیں یعنی وہ جو کبھی بھول جانے کی عادتیں عوام کو لاحق ہوا کرتی تھیں اب ان سے عوام کی جان چھوٹ چکی ہے اور وہ کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ لے اُس ہاتھ دے کے مصداق فوری نتیجہ چاہتے ہیں ہاں اگر متعلقہ محکمے کا مقصد ماضی کی طرح آج کے حکمرانوں کو اس قسم کی ”نقاب کشائیوں” کے ذریعے بدنام کر کے عوام کی نظروں میں بے وقعت بنانا ہو، تو شاید اب یہ اتنا آسان بھی نہیں یعنی بقول ظفر اقبال
چار سو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا
حقیقت تو یہی ہے کہ عوام کو گیس نہیں مل رہی، رات نو بجے سے فجر تک تو مکمل طور پر ناپید ہوتی ہے اور دن کے مختلف اوقات میں بھی پریشر کا مسئلہ رہتا ہے اس لئے اس قسم کے دعوے کہ ملک بھر میں کہیں بھی گیس شیڈنگ نہیں ہورہی نہ صرف سفید جھوٹ ہے بلکہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنے کے مترادف ہے اور اس قسم کی طفل تسلیوں سے عوام بہلنے والے نہیں ہیں تو جھوٹ کے لالی پاپ سے منہ میٹھا نہیں ہوسکتا بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں” حالانکہ اب کھلونوں سے بہلانے کا زمانہ بھی نہیں رہا، سو بہتر ہے کہ جھوٹ بول کر عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی