p613 238

شعبہ اعلیٰ تعلیم کی ضروریات پوری کی جائیں

محکمہ ہائر ایجوکیشن میں مختلف سکیل کے1 ہزار سے زائد اساتذہ کی ترقی کیلئے مجوزہ لازمی تربیتی کورس بجٹ بروقت مختص نہ ہونے کے نتیجے میں6 ماہ سے تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے ترقی کے منتظر کالج اساتذہ کی تربیت کا منصوبہ زیر التواہونے کا خدشہ ہے کہ سرکاری کالجز کے اساتذہ کو اگلے سکیل میں پروموشن کیلئے تربیتی کورس لازمی قراردیا گیا ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے بجٹ میں سالانہ 12سے پندرہ کروڑ روپے مختص کئے جارہے تھے لیکن رواںمالی سال محض 6کروڑ روپے محکمہ کو دیئے گئے ہیں جو اساتذہ کی تربیت کیلئے ناکافی قراردیئے جارہے ہیں اس لئے ٹیچرز کی تربیت کا سلسلہ شروع نہیںہوسکا۔تعلیم ہو یا تربیت یا کوئی اور شعبہ وسائل خرچ کئے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم کو حکومت کی طرف سے بارہ کروڑ روپے کی بجائے چھ کروڑ روپے دینے کے باعث تربیتی کورس کرانے کیلئے وسائل نہ ہونے کے سبب یہ عمل التوا کا شکار ہے۔ حال ہی میںیونیورسٹی میںمستقل ملازمین نہ رکھنے کے حوالے سے بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں، حکومت کو اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کا احساس ضرور ہے اور تعلیم کے شعبے کی ترقی تحریک انصاف کے منشور کا اہم حصہ ہے لیکن عملی طور پر حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو وسائل کی فراہمی کے حوالے سے جو صورتحال ہے اس سے تو پہلے سے جاری معمولات متاثر ہورہے ہیں کجا کہ درس وتدریس کی بہتری اور معیاری تعلیم کی توقع رکھی جائے۔ حکومتی اقدامات سے کسی طور پر نظر نہیں آتا کہ ارباب حل وعقد کو اساتذہ کی تریت وترقی اور اچھے وقابل اساتذہ کی حوصلہ افزائی وتقرری سے تعلیم کے شعبے میں تبدیلی لا ئی جاسکے، بدقسمتی سے کورونا وباء سے تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہو چکا ہے اور بدستور متاثر ہورہا ہے ایسے میں اگر معمول کی تربیت کیلئے بھی درکار وسائل کی فراہمی کا بندوبست نہ ہوسکا تو خدا نخواستہ تعلیم کے مرقد پر فاتحہ خوانی کی نوبت آسکتی ہے۔ بیان شدہ صورتحال نہایت تشویشناک اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ حکومت کو اعلیٰ تعلیم کے شعبے کیلئے کم ازکم مطلوبہ فنڈز کا تو اجراء کردینا چاہئے اور معمولات میں فرق نہیں آنے دینا چاہئے۔ اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کے باعث ان کی ترقی متاثر ہونے سے اساتذہ میں بددلی پھیلے گی اور اس کے تعلیم وتدریس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت اس سلسلے میں مزید تاخیر کا مظاہرہ نہیںکرے گی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے ممکنہ وسائل کی فراہمی جلد یقینی بنائی جائے گی۔تاکہ اساتذہ کی تربیت کا عمل متاثر نہ ہو اور ان کی تربیت کا عمل جلد سے جلد شروع کیا جاسکے۔
افغانستان میں خواتین کو نشانہ بنانے کے بڑھتے واقعات
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسلح افراد کی فائرنگ سے سپریم کورٹ کی دو خواتین جج جاں بحق اور ایک کا زخمی ہونے کا واقعہ دوہرا افسوسناک واقعہ ہے۔ افغانستان میںمختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو ایک منظم طریقہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے جن کے تحفظ میں حکومت کی ناکامی سنگین مسئلہ ہے۔ حالیہ دنوں میں افغانستان میں دہشت گردی اور بد امنی کے واقعات میں شدت آ گئی ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر ملک کے مختلف علاقوں میں فائرنگ، بم دھماکوں یا راکٹ حملوں کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ افغان مذاکراتی عمل میں کہیں کسی رخنہ کے باعث معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں جس کے باعث تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ افغانستان میں تشدد کے واقعات امن مذاکرات کے دوران بھی جاری تھے لیکن خواتین پر حملوں میں اضافہ کے پیچھے ضرور کوئی خاص وجہ ہوگی۔ اس کا ایک ممکنہ مقصد دباؤ بڑھانا اور دنیا کو متوجہ کرنا ہوسکتا ہے۔افغانستان میں امن عمل میں رکاوٹیں دور کرنا اقوام عالم کی مشترکہ ذمہ داری ہے اس ضمن میںپیشرفت ہونی چاہئے۔ افغانستان کی حکومت کو خواتین کے تحفظ کیلئے مزید اور سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکس وصولی کے مزید تقاضے
شہریوں کیلئے پشاور میں چھولے فروخت کرنے والے 7 افراد کروڑوں روپے اثاثہ جات کے مالک نکلنے کی خبر حیرت و دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہے لیکن واقفان حال اس امر کی تصدیق کرتے ہیںکہ بعض معروف چھولے فروش بڑے متمول ہوچکے ہیں اور ان کے اثاثوں کی مالیت کروڑوںمیں آچکی ہے۔ اسی طرح بعض چاول بیچنے والے اور کئی ایک بظاہر چھوٹے سے کاروبار کرنے والوں کی آمدنی بھی بھاری ٹیکس وصولی کی متقاضی ہے۔ انکم ٹیکس حکام کا بالآخر نظر نہ آنے والے کاروبار پر نظر اور نوٹسز کا اجراء ٹیکس وصولی کی بہتری کیلئے اہم قدم ہے۔زیادہ سے زیادہ افراد سے ٹیکس وصولی اور پوشیدہ آمدن کا اندازہ لگانے کیلئے انکم ٹیکس کے حکام کو مزید مساعی کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی ٹیکس ادائیگی کا مجاز فرد ٹیکس چھپانے کا مرتکب نہ ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام