1 129

شناخت کا بحران

ان سطور میں قبل ازیں بھی تواتر کیساتھ عرض کرتا رہا ہوں کہ دنیا بھر میں مفتوح خطوں کی تاریخ جس بری طرح مسخ کی گئی اس نے آگے چل کر شدید مسائل پیدا کئے۔ مفتوح خطوں کی تاریخ کو ازسرنو مرتب کرنے کی ذمہ داری فاتحین کے دفتریوں اور وظیفہ خوار تاریخ نویسوں نے نبھائی اور خوب نبھائی لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ رنگ ڈھنگ پھیکے پڑے اور مقامیت کا شعور بیدار ہوا۔ زمین زادوں کے اہل دانش نے اپنے ہونے کے اصل کی تلاش شروع کی تو انہیں دھونس جبر اور فتوؤں کا سامنا کرنا پڑا’ تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ تاریخ مسلط نہیں کی جاسکتی۔ ایسا ممکن نہیں کہ برصغیر پاک وہند کے لوگ عرب’ ایران وتوران’ افغان یا برطانوی تاریخ کو اوڑھ کر جینے لگیں یا ان خطوں میں برصغیر پاک وہند کی تاریخ کو اپنی تاریخ کے طور پر پیش کیا جائے۔ مکرر یہ باتیں اسلئے یاد آئیں کہ پچھلے دنوں سندھ میں مقامیت اور اپنی تاریخ پر نازاں لوگوں اور فاتحین سے رشتوں کے خبط عظمت میں مبتلا طبقات کے درمیان مقامیت کے فخر اور ہیرو کے حوالے سے بحث دیکھنے میں آئی۔ طرفین میں کچھ نے علمی اور تاریخی حوالوں سے اس موضوع پر دلائل دئیے اور کچھ سستی جذباتیت کا شکار صرف گردن زدنی کا شوق پورا کرتے رہے۔ ایسا ہی منظر’ ماحول اور ملاکھڑا کچھ عرصہ قبل اس وقت بھی دیکھنے میں آیا تھا جب لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کیساتھ ان کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ اہل پنجاب کے ایک طبقے نے مقامیت کے حوالے سے رنجیت سنگھ کو اپنا ہیرو قرار دیا، دوسرے طبقے نے مقامیت اور رنجیت سنگھ کے حوالے سے سامنے آنے والے جذبات کے جواب میں دو قومی نظریہ پیش کیا۔ اس بحث میں پنجاب میں شامل سرائیکی بولنے والے علاقوں کے لوگ کودے تو ایسا لگا تیسری عالمی جنگ سوشل میڈیا کے میدانوں میں لڑی جا رہی ہے۔ چند دن قبل سندھ کا ہیرو کون راجہ داہر یا محمد بن قاسم کے حوالے سے شروع ہوئی بحث میں غداری’ نمک حرامی’ اسلام دشمنی کے فتوؤں کی دو دھاری تلواریں استعمال ہوئیں۔ تلخی ابھی باقی ہے بلکہ یوں کہیں کہ آگ چنگاریوں میں بدلی گئی مگر سلگ رہی ہے۔
پاکستانی اہل دانش اور چند دستیاب محققین سے ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ انہوں نے فہم اور تحقیق کو جنس بازار سے زیادہ اہمیت نہیں دی، جو چیز بک سکتی ہو وہی لکھی گئی، اسی وجہ سے ہمارے یہاں بعض رومانی ناولوں کو سکہ بند تاریخی کتب کا درجہ حاصل ہے۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ برصغیر کی تقسیم کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والے پاکستان میں ابتداء میں ہی قومی تاریخی کمیشن بنا دیا جاتا بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا بلکہ ہندو سندھ میں پاکستان کے قیام کے تاریخ سے جو جواز ڈھونڈ کر سیاسی رہنما اور دیندار حلقے لائے اسے پذیرائی تو مل گئی لیکن اس سے مقامیت کو شدید نقصان پہنچا، اس نقصان نے شناخت کا وہ بحران پیدا کیا جو بہتر سال بعد بھی ریاست کے گلے کا ہار ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ قومی تاریخی کمیشن اس لئے نہ بن سکا کہ قیام پاکستان میں اہم ترین بلکہ بنیادی کردار ادا کرنے والے دو صوبوں مشرقی پاکستان اور سندھ اپنی قدیم تاریخی شناختوں اور تاریخ سے دسبتردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ ہر دو کے اہل دانش کا خیال تھا کہ تاریخ کو آگے بڑھنا چاہئے یا درمیان میں سے کاٹ دینے اور ہزاریوں کی تاریخ کو چند سو سالوں کی تاریخ کے طور پر پیش کرنے سے ان کی اگلی نسلیں اپنے اصل سے کٹ جائیں گی۔ طالب علم کی حیثیت سے میرے نزدیک یہی منطقی رائے تھی، اس کی حوصلہ افزائی یا اس موقف کی روشنی میں تاریخ نویسی کی ضرورت کیوں نامحسوس کی گئی اس پر جس سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے ہمارے ہاں آج بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے حوالے سے بھی ہمارے اندر ایک ایسی فرقہ وارانہ انتہا پسندی پروان چڑھ چکی جو بگاڑ تو بڑھا سکتی ہے مثبت نتائج یا اشتراک عمل کی حوصلہ افزائی کیساتھ شناخت کے بحران کا حل تلاش نہیں کرسکتی۔
اس وقت ہمارے یہاں تین طرح کی شناختوں پر مصر طبقات ہیں، اولاً مسلم قومیت’ ثانیاً پاکستانی قومیت اور ثالثاً قدیم تہذیبی وتاریخی شناخت کیساتھ سماجی’ سیاسی اور معاشی مفادات کے پیش نظر فیڈریشن کے طور پر اکٹھے رہنا، جس بنیادی سوال کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا وہ یہ ہے کہ اس خطے میں اسلام کی آمد سے قبل یا پھر تقسیم برصغیر سے قبل جو مقامی قومیتی شناختیں موجود تھیں ان سے انکار نہیں، اسلام وپاکستان دشمنی قرار دینے سے شناخت کا بحران بڑھے گا یا حل ہو جائے گا؟ ساٹھ سے اسی (1960ء سے 1980ئ) تک کی تین دہائیوں میں فکری ارتقا کا سفر طے کرنے والی نسل کا موقف ہے کہ کوئی بھی شخص جب پشتون’ بلوچ’ سندھی’ پنجابی یا سرائیکی شناخت پر اصرار کرتا ہے تو وہ اسلام یا پاکستان سے انکار نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسلام بطور مذہب اور پاکستان بطور فیڈریشن ہماری مقامیت کے دشمن نہیں اور ناہی مقامیت پر فخراسلام اور پاکستان سے دشمنی ہے۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ مفتوح علاقوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کے بعد شناخت کے سوال پر مکالمے کی بجائے ہٹ دھرمی مسائل پیدا کرتی ہے۔ پچھلے سات عشروں سے ہمیں کیسے کیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں، سب سے اہم مسئلہ شناخت کا بحران ہے’ اس بحران کو مکالمے کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے ”میں نا مانو” کی ہٹ دھرمی سے نہیں۔ اس خطے کی قدیم تاریخی تہذیبی وقومیتی شناختوں اور فیڈریشن کی شناخت کے درمیان کوئی تصادم ہے ناہی مقامیت اور مذہب کے درمیان کوئی جھگڑا۔ بظاہر جو تنازعات اور شدت پسندی دکھائی دے رہی ہے یہ عدم برداشت کا نتیجہ ہے اور کچھ عمل دخل ان دھندے بازوں کا ہے جو یہ سمجھتے ہیں، تاریخ کے مطالعے اور اس پر اُٹھے مکالمے سے ان کی د کانیں بند ہوجائیں گی۔ مجھ طالب علم کی رائے بہرطور ہمیشہ یہ رہی اور ہے کہ لوگوں کو ان کی اصل تاریخ سے کاٹ کر نہیں رکھا جاسکتا۔ اس لئے حقیقت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟